Thursday, May 30, 2019

پشتون تحفظ موومنٹ کا مستقبل


پشتون تحفظ موومنٹ کا مستقبل 
کیا تم فاٹا کے علاقے سے واقف ہو؟ یا فاٹا کے کسی علاقے میں جانے کا اتفاق ہوا ہے؟وہاں لوگوں کا رہن سہن کیسا ہے؟انکی روایات کیا ہیں؟ایک پشتون دوست نے یکے بعد دیگرے کئی سوال داغ دئیے۔ میں نے پریشانی کے عالم میں پوچھا مدعا کیا ہے؟ کہنا کیا چاہتے ہو کھل کر بات کرو۔بولا، پچھلے دنوں فیس بک پر تمہاری ایک پوسٹ پڑھی جس میں تم نے پشتون تحفظ موومنٹ کی بھر پور مخالفت کی تھی۔ تمہیں کیا معلوم کہ محسن داوڑ، علی وزیر اور منظور پشتین کے مطالبات درست ہیں یا غلط۔ میں نے عرض کیا پہلے آپ اپنا موقف بیان کریں اسکے بعد میں اپنا موقف پیش کروں گا۔
پشتون دوست نے پی ٹی ایم کی شروع سے لیکر اب تک کی کہانی سنائی کہ کس طرح پشتونوں کے حقوق کے حصو ل کے جدوجہد کررہے ہیں۔ پشتون دوست کے مدعا بیان کرچکنے میں بعد میں یوں گویا ہوا۔ باالفرض مان لیاجائے کہ پی ٹی ایم کے مطالبات درست ہیں لیکن مطالبات منوانے کا یہ کون سا طریقہ ہے کہ اپنی ہی فوج کو گالیاں دو اور انہیں قتل کی دھمکیاں دو۔ پاکستان دشمن قوتوں اور پاکستان کی سلامتی کے درمیان اگر کوئی دیوار اس وقت حائل ہے تو وہ پاک فوج ہے۔ اگر خدانخواستہ پاک فوج کمزور ہوگئی تو پاکستان کو لیبیا، عراق اور افغانستان بنتے دیر نہیں لگے گی۔ 
اگر پی ٹی ایم کے قائدین و پیروکار پاک فوج کے خلاف علم بغاوت بلند کریں گے جسکی شروعات وہ پاک فوج کی چوکیوں پر حملہ کر کے کرچکے ہیں تو انکے اور تحریک طالبان پاکستان کے نام نہاد مجاہدین کے درمیان کیا فرق رہ جاتا ہے۔ انہوں نے بھی ریاست کے خلاف بندوق اٹھائی تھی۔یہ بھی ریاست کے خلاف پرتشدد کاروائیوں پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو جو حال تحریک طالبان پاکستان کا ہوا ہے پی ٹی ایم کا مستقبل بھی ان سے مختلف نہیں ہوگا۔ 
پی ٹی ایم ایک سیاسی جماعت ہونے کا دعوی کرتی ہے تو اسے اپنی جدو جہد بھی سیاسی رکھنی چاہیے۔ نہ کہ ہتھیار باندھ کر ریاست کے سامنے کھڑی ہوجائے۔ چند ماہ قبل یہی غلطی ایک مذہبی و سیاسی جماعت کے قائدین نے کی تھی جو کہ توہین رسالت کے نام پر اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اس جماعت کے قائدین جوش میں آکر ہوش کھوبیٹھے اور پاک فوج کے جوانوں کو اکسانے کی کوشش کی کہ وہ چیف آف آرمی سٹاف کے خلاف علم بغاوت بلند کریں جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی واجب القتل قرار دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ریاست حرکت میں آئی اور آج کل اسی مذہبی و سیاسی جماعت کے قائدین کے دلوں کی دھڑکنیں بند ہوئی جاتی ہیں۔ لہذا پی ٹی ایم کو اس طرح کے واقعات سے سبق سیکھنا چاہیے اور ریاست کے خلاف کسی قسم کی پرتششد د کاروائیوں سے گریز کرنا چاہیے۔ 
ایک اور بات جو پی ٹی ایم کے خلاف لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ تمام ریاست مخالف قوتیں پی ٹی ایم کی حمایتی نظر آتی ہیں۔مثلاََپاکستان کا ازلی دشمن بھارت اور افغانستان پی ٹی ایم کی حمایت میں پیش پیش ہوتے ہیں جبکہ بھارت کشمیر میں کیا کر رہا ہے اسکے خلاف نہ تو پی ٹی ایم والے بولتے ہیں اور نہ ہی افغانستان کی حکومت۔ افغانستان کے اپنے اتنے مسائل ہیں جن کو نمٹانے کی بجائے وہ پی ٹی ایم کو ہر ممکن مدد فراہم کررہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف پی ٹی ایم والے خود کو پاکستانی کہلانے کی بجائے افغانی کہلائے جانے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور افغانستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں اس بنیاد پر کہ وہ پشتون ہیں۔ اگر پی ٹی ایم کا یہ مطالبہ جائز مان لیا جائے تو اس حساب سے پاکستان کے پنجابیوں کو بھارت کے پنجابیوں سے الحاق کرکے علیحدہ ریاست بنانی چاہیے۔پشتون افغانستان کے ساتھ مل جائیں، سندھی اپنا الگ سے وطن چن لیں۔ جبکہ بلوچیوں کو ایرانی بلوچوں سے الحاق کی اجازت دے دی جائے۔ اس حساب سے تو ریاست کا وجود ہی مٹ جائے گا۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ 
سب کو معلوم ہے کہ فاٹا کے علاقے میں بے پناہ مسائل ہیں۔ کیونکہ انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی وہاں کالا قانون رائج رہا اور وہاں کے باسیوں کو انسانی حقوق نہیں دئیے گئے۔ علاوہ ازیں فاٹا کا علاقہ طالبان کی آماجگاہ بنا رہا۔ اسکے بعد فوجی آپریشنز نے فاٹا کے باسیوں کو نقل مقانی پر مجبور کیا جبکہ طالبان سے جنگ کے دوران لاتعداد لوگوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ بھی دھونا پڑے۔ اس پر افسوس یہ کہ پاکستان کی سابقہ حکومتوں نے فاٹا کے متاثرین کے نقصانات کا ازالہ کرکے انکے زخموں پر مرہم رکھنے کے کوشش بھی نہیں کی۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ آج اگر فاٹا خیبر پختونخواہ کا حصہ بن چکا ہے اور وہاں 1901سے رائج کالے قانون کے خاتمے کے بعد پاکستان کا قانون نافذ ہوچکا ہے تو اسکے پیچھے بھی وردی کی طاقت ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر یہ حقیقت ہے کہ اگر فوج کوشش نہ کرتی تو پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں ایک پیج پر ہوکر فاٹا کو خیبر پختونخواہ کا حصہ نہ بناتیں۔ لہذا یہ نعرے لگانا کہ یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے انتہائی گمراہ کن بات ہے۔دیکھا جائے تو فوج نے فاٹا سے نام نہاد مجاہدین کا خاتمہ کرکے ریاست کی رٹ کو بحال کروایا ہے۔ اب یہ سیاستدانوں پر ہے کہ وہ فاٹا کے متاثرین کے زخموں کی مرحم پٹی کیسے کرتے ہیں۔ 
کوئی بھی ریاست اپنے شہریوں کو اپنی ہی فوج پر حملوں کی اجازت نہیں دیتی۔ اور نہ ہی فوجیوں کو اجازت دیتی ہے کہ وہ نہتے سویلین پر ظلم وستم ڈھائیں۔ لہذا پی ٹی ایم کے قائدین کو چاہیے کہ اپنے جائز مطالبات بندوق کی نوک پر منوانے کی بجائے سیاسی طریقے سے حل کریں ورنہ یہ نوشہ ء دیوار ہے کہ پی ٹی ایم کا مستقبل بھی تحریک طالبان پاکستان سے مختلف نہیں ہوگا۔

Thursday, May 9, 2019

شہدائے داتا دربار کے نام


کیا کم عمری کی شادی پر پابندی جائز ہے؟


آج کل پاکستان کے ایوانوں میں کم عمری کی شادی پر پابندی لگانے کے بل پاس کیے جارہے ہیں لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ نہ تو ان بل پیش کرنے والوں نے جانچ پڑتال یا تحقیق کرنے کی کوشش کی ہو گی اور نہ ہی بل کی حمایت میں ووٹ دینے والوں نے۔ یہی وجہ ہے کہ سنی سنائی باتوں پر کان دھرتے ہوئے اس بل کی حمایت میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔
کم عمری کی شادی جائز ہے یا ناجائز ؟ اس بابت کوئی حتمی نتیجہ نکالنے سے قبل چند ضروری سوالات کے جوابات دینا اشد ضروری ہیں۔ اس ضمن میں سب سے پہلا سوال یہ بنتا ہے کہ ایک لڑکے یا لڑکی کی شادی کے قابل ہونے کی صحیح عمر کیا ہے؟اس متعلق اگر ہم قدرت کی طرف دیکھیں تو ہمیں واضح جواب مل جاتا ہے کہ جب کوئی لڑکا باپ اور لڑکی ماں بننے کے قابل ہوجائے تو وہی شادی کی صحیح عمر ہے۔ کیونکہ مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا یہ کامل ایمان ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ جو کرتا ہے وہ درست کرتا ہے اور اس میں رتی برابر بھی جھول نہیں ہوسکتا۔
جس عمر میں ایک بچی حاملہ ہونے کی حیثیت حاصل کرسکتی ہے وہی اسکی شادی کی اصل عمر ہے ۔ لیکن یہاں بعض نام نہاد دانشور مغرب کی تقلید میں تنقید کرتے ہیں کہ بچی کی عمر اتنی کم ہوتی ہے کہ وہ اپنی دیکھ بھال صحیح طرح سے نہیں کرپاتی تو وہ بچے کی پرورش کیسے کرپائے گی؟ ایسے لوگوں کو سیدھا سا جواب یہ بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی پر اتنا بوجھ نہیں ڈالتا کہ اس سے اٹھایا نہ جاسکے۔ کوئی بھی کام خود سے نہیں آتا ، اسے باربار کرنے سے آتا ہے اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ایک بچی کی اگر کم عمری میں شادی نہ کی جائے تو بیس ، بائیس یا پچیس سال کی عمر میں وہ اتنی سمجھ دار ہوجائے گی کہ بچے کی پرورش احسن طریقے سے کرسکے گی؟۔ جب تک اسے حاملہ عورت کی پچیدگیوں اور زچگی کی تکالیفوں کا تجربہ نہیں ہوگا اور بچے کو ماں کا دودھ پلانے کا تجربہ نہیں ہوگا وہ کیسے یہ تمام کام سیکھ پائے گی؟ اگر تجربے سے ہی یہ تمام کام سیکھے جاتے ہیں تو پھر یہ تجربہ کم عمری میں مانع کیوں ہوا؟
مغربی تہذیب کے پیروکار نام نہاد دانشور کم عمری کی شادی پر تنقید کرتے ہوئے دو سوال اٹھاتے ہیں۔ اول یہ کہ لڑکی اور لڑکے کی معاشی حیثیت کمزور ہوتی ہے ۔ دوم ، کم عمر بچی کا جسم اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ حمل کی تکالیف کو احسن طریقے سے برداشت کرسکے۔ جہاں تک اول الذکر سوال کا تعلق ہے تو جس گھر میں ایک لڑکا پرورش پا رہا ہے وہاں ایک فرد یعنی بیوی کے آجانے سے کتنا خرچہ بڑھتا ہے؟مزید یہ کہ گھر میں نئی آنے والی اپنا رزق اپنے ساتھ لے کر آتی ہے۔ لہذا نام نہاد نقادوں کا یہ پوائنٹ وزن نہیں رکھتا۔ آخرالذکر سوال بچی کی جسمانی طاقت کے متعلق ہے تو جب اللہ تعالیٰ ایک بچی کو ماں بنانے کے قابل کردیتا ہے تو اسے حمل اور زچگی کی تکالیف برداشت کرنے کے قابل بھی بنا دیتا ہے۔ ہم فیصلہ کرنے والے کون ہوتے ہیں کہ کس عمر میں ایک بچی کو ماں بننا چاہیے کیونکہ یہ فیصلہ اس عظیم ہستی کے ہاتھ میں ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے کہ ایک بچی کو ماں کب بنانا ہے۔ لہذا ان دانشوروں کا دوسرا پوائنٹ بھی وزن نہیں رکھتا۔
چلئے تھوڑی دیر کے لئے مان لیتے ہیں کہ کم عمری کی شادی پر پابندی لگوانے کے حق میں دلائل دینے والوں کا موقف درست ہے ۔ اگر یہ مان لیا جائے تو پھر ایسے ممالک کا جائز ہ لینا پڑے گا جہاں کم عمری کی شادی پر پابندی نافذ ہے اور دیکھنا پڑے گا کہ آیا وہاں اس کےمثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں یا منفی؟تو جناب مغرب میں کم عمری کی شادی پر پابندی کے بل انیسوی صدی کے شروع میں ہی پاس ہونا شروع گئے تھے ۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ان ملکوں میں بچیاں بغیر شادی کے مائیں بن رہی ہیں، یعنی ناجائز اولا د پیدا ہورہی ہے جنکا کوئی والی وارث نہیں ہوتا اور انکو خیراتی اداروں کے سپرد کردیا جاتا ہے کہ انکی دیکھ بھال کی جائے۔ کیونکہ بغیر شادی کے جب کوئی لڑکا لڑکی ماں باپ بنتے ہیں تو ایسی صورت میں پیدا ہونے والی اولاد کو کوئی بھی اپنانے کی جسارت نہیں کرتا ۔ لہذا لڑکا اور لڑکی دونوں اپنی اپنی راہ اپناتے ہیں اور ناجائز بچے کو خیراتی اداروں کے حوالے کردیتے ہیں۔ ایسا ناجائز بچہ جب تمام عمر ماں باپ کی شفقت حاصل نہیں کرپاتا اور اسے جب یہ علم ہوتا ہے کہ وہ ایک ناجائز بچہ ہے تو وہ پھر اسی معاشرے سے اپنا انتقام لیتا ہے جہاں وہ پیدا ہوا تھا۔ لہذا ایسی صورت میں جرائم کی شرح بڑھ جاتی ہے۔
ایسے ملکوں میں کم عمری کی شادی پر پابندی لگانے کے کئی اور نقصانات سامنے آئے ہیں۔ مثلاََ مانع حمل دواؤں کی کثرت یا بچہ ضائع کرنے کے لئے آپریشن کروانا، کنواری ماؤں کی تعداد کا بڑھنا، خیراتی اداروں میں ناجائز اولادوں کی کثرت ہونا،خاندانی نظام جہاں لوگ مل جل کر رہتے ہیں اور ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹتے ہیں کا تباہ و برباد ہوجانا۔ نکاح یا شادی کی رسم کا ناپید ہوجانا وغیرہ وغیر ،یہ سب مغربی ممالک میں کم عمری کی شادی پر پابندی لگانے کے ثمرات ہیں۔
اگر ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ کم عمری کی شادی پر پابندی لگانے سے پیدا ہونے والی برائیاں ہمارے معاشرے میں بھی در آئیں تو بسم اللہ کیجئے اور اسی مغربی راستے پر چلتے رہیے بصورت دیگر قدرت کے فیصلے پر راضی ہوجائیے کہ ایک لڑکے اور لڑکی کی شادی کی صحیح عمر کیا ہے۔ خدارا کم عمری کی شادی پر پابندی لگانے سے پہلے یہ بھی سروے کروالیں کہ کتنی بہنیں اور بیٹیاں رشتوں کے انتظا ر میں ماں باپ کے گھر میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہورہی ہیں۔