Friday, September 21, 2018

ڈیل ہو گئی ہے؟



سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت پر رہائی کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بحث جاری ہے کہ شریف خاندان کی دوبارہ سے ڈیل ہوگئی ہے۔اس بحث میں دو گروپ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں جبکہ ایک گروپ خاموش ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جو دو گروپ اس بحث میں حصہ لے رہے ہیں وہ دونوں پی ٹی آئی یعنی حکومتی پارٹی کے کارکنوں پر مشتمل ہے اور جو گروپ خاموش رہ کر مزے لے رہا ہے اسکا تعلق ن لیگی کارکنوں سے ہے۔ حکومتی پارٹی کے کارکن دودھڑوں میں منقسم ہوچکے ہیں ایک کہتا ہے کہ ڈیل ہوگئی ہے ۔ یہ گروپ اپنی بات میں وزن ڈالنے کے لئے جو دلائل دیتا ہے وہ بھی حقیقت پر مبنی ہیں۔مثلاََ جس دن میاں نوازشریف ، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو ضمانت پر رہائی ملی اسی دن وزیراعظم عمران خان سعودی عرب کے دورے پر تھے جس سے شکوک و شبہات نے جنم لیا کیونکہ مشرف دور میں شریف خاندان کی جو ڈیل ہوئی تھی اس میں سعودی عرب کا اہم کردار تھا۔چونکہ پاکستان کا خزانہ اس وقت خالی ہے اور اسے پیسوں کی اشد کی ضرورت ہے لہذا ایسے وقت میں سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کے لئے دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کرنا ڈیل کے متعلق شبہات کو بڑھاوا دیتا ہے۔ انہی شکوک کی بنیاد پر یہ گروہ دعوے دار ہے کہ عمران خان نے سعودی فرماں روا محمد سلمان سے شریف خاندان کی ڈیل کرلی ہے۔ پی ٹی آئی کا مخالف گروہ ان تمام افواہوں کی نفی کرتا ہے اور دعوے دار ہے کہ کسی قسم کی کوئی ڈیل نہیں ہوئی۔ اپنے دعوے کے حق میں وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ عمران خان بائیس سال سے جدوجہد کررہا ہے۔ اس دوران اسے شریف فیملی کی طرف سے اپنے ساتھ مل جانے اور عیش کرنے کی بھی آفرز ہوئیں مگر اس نے ٹھکرا دیں۔ اگر اس نے کرپشن پر سمجھوتہ کرنا ہوتا تو آج سے کئی سال پہلے کرچکا ہوتا۔ دوسری دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ عمران خان کے سیاست میں آنے اور آخرکار کامیاب ہونے کی صرف اور صرف ایک وجہ ہے اور وہ ہے شریف اور زرداری خاندان کی کرپشن کے خلاف آواز اٹھانا۔ عوام چونکہ ان دونوں خاندانوں کی کرپشن سے تنگ آچکے ہیں اس لئے عوام نے اس بار عمران خان کو موقع دیا ہے تاکہ وہ پاکستانی عوام کو ان کے چنگل سے آزاد کروائے۔ اب اگر عمران خان کسی بھی وجہ سے سمجھوتہ کرکے ان دونوں خاندانوں کی کرپشن پر آنکھیں بند کرلیتا ہے تو پھر خان کی سیاست ختم سمجھیں۔ تیسری دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ عمران خان نے ہمیشہ ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے لہذا اب کی بار بھی وہ سرخرو ہوگا اور نہ صرف کرپٹ لوگوں کو احتساب کرے گا بلکہ پاکستان کو دنیا کی نظر میں ایک باوقار ملک بھی بنائے گا۔ بنظر غائر دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کے کارکنوں کا دوسرا گروہ جو ڈیل ہونے کی نفی کرتا ہے وہ حق بجانب نظر آتا ہے۔ اسکی کئی وجوہات ہیں۔ اول، مشرف دور میں جب ڈیل ہوئی تھی تب پاکستان میں مارشل لاء کا نفاذ تھاجوکہ امریکہ بہادر کی ضرورت تھی لیکن دنیا کو دکھانے کے لئے جمہوریت کا راگ الاپنا بھی ضروری تھا مزید یہ کہ مشرف کو قابو اور دباؤ میں رکھنے لئے مشرف مخالف قوتوں کا وجودضروری تھا یہی وجہ تھی کہ انکل سام نے سعودی عرب کی مدد سے مشرف سے ڈیل کی اور نوازشریف کو بحفاظت بیرون ملک لے گیا۔ تاہم اب حالات یکسر بدل چکے ہیں کیونکہ پاکستان میں اس وقت ایک جمہوری حکومت ہے مزید یہ کہ امریکہ میں بھی اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ مسند اقتدار پر براجمان ہے جو سب سے پہلے امریکہ کا نعرہ لگا رہا ہے ۔اپنے تعیں وہ اس ضعم میں مبتلا ہے کہ امریکہ جو کام نکلوانا چاہے وہ دھونس دھمکی سے ہی کروا لے گا اسکے لئے اسے مہروں کی ضرورت نہیں۔ اسکی واضح مثالیں شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کرنا اور ایران پر پابندیوں کا اطلاق ہے۔ ٹرمپ کا یہ عقیدہ ہے کہ جب امریکہ دھمکیوں سے کام نکلواسکتا ہے تو مہروں کی کیا ضرورت ۔ یہی وجہ ہے کہ فی الحال امریکہ کو نواشریف کی ضرورت نہیں لہذا وہ کسی بھی قسم کی ڈیل کے لئے پاکستان پر دباؤ نہیں ڈالے گا۔ دوم، سعودی عرب کے فرماں روا محمد بن سلمان نے مسند اقتدار پر بیٹھتے ہی کچھ ایسے اقدامات کیے تھے کہ کرپٹ افراد کو جان کے لالے پڑگئے تھے مثلا اس نے بڑے بڑے کرپٹ افراد کو پکڑ کر نظر بند کردیا تھا اور اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک انہوں نے لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں کی۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ ایسا حکمران کرپشن کے الزامات پر نکالے گئے سابقہ وزیراعظم کی مدد کے لئے آئے گا۔ہرگز نہیں۔مزید یہ کہ سعودی عرب کو اس وقت پاکستان کی طرف سے بھر پور اخلاقی اور فوجی حمایت درکار ہے کیونکہ حوثی باغیوں نے اسکی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اگرپاک آرمی اور وزیراعظم سعودی عرب کی حفاظت کی یقین دہانی نہیں کرواتے تو سعودی عرب کے لئے کئی مشکلات جنم لیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ بلکہ وزیر اعظم عمران خان نے بھی اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب کا ہر طرح سے دفاع کیا جائے گا۔ لہذا یہ بات طے ہے کہ اس بارسعودی عرب بھی نوازشریف کو بچانے نہیں آئے گا۔ تیسرا، اس خطے کی امریکہ کے بعد دوسری بڑی طاقت چین ہے۔ اور چین وہ واحد ملک ہے جہاں کرپٹ لوگوں کو پکڑ پکڑ کر سرعام سزائے موت دی جارہی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ چین کرپشن کے الزامات پر معزول شدہ سابق وزیر اعظم کی مدد کو آئے گا۔ شاید اب کی بار قسمت کی دیوی نوازشریف پر مہربان نہیں۔اسی لئے کسی قسم کی ڈیل کادور دور تک کوئی امکان نہیں۔ 

Thursday, September 20, 2018

نیا گوادر



نیا گوادر

وزیر اعظم عمران خان مسند اقتدار پر بیٹھنے کے بعد سب سے پہلے غیر ملکی دورے پر سعودی عرب گئے جہاں وہ سعودی فرماں روا محمد بن سلمان سے دوطرفہ مذاکرات کے بعد دس ارب ڈالرز کے اقتصادی پیکج کامعاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اگرچہ وزیراعظم کا ٹارگٹ تھا کہ کسی نہ کسی طرح متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ کم از کم پندرہ ارب ڈالرز کے معاہدے کیے جائیں مگر دس ارب ڈالرز بھی کوئی چھوٹی رقم نہیں۔ تاہم یہ رقم پاکستان کو امداد یا قرضے کی شکل میں نہیں ملے گی بلکہ سعودی عرب اس رقم کی سرمایہ کاری پاکستان میں کرے گا۔ وزیر اعظم کے حالیہ دورہ سعودی عرب کی سب سے اہم کامیابی سعودی فرماں روا کو سی پیک میں شمولیت پر راضی کرنا ہے۔ سعودی عرب نے سی پیک میں تیسرے اسٹرٹیجک پارٹنر کے طور پر شمولیت پر رضامندی کا اظہار کیا ہے یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب گوادر میں آئل سٹی تعمیر کرے گا۔ اگرچہ گوادر میں آئل سٹی تعمیر کرنے کا منصوبہ پہلے چین نے بنایا تھا تاہم پاکستان نے چین کو رضامندکر لیا ہے کہ یہ آئل سٹی سعودی عرب کو تعمیر کرنے دیا جائے۔سوال یہ ہے کہ گوادر میں آئل سٹی کی تعمیر کازیادہ فائدہ سعودی عرب کو ہوگا یا چین کو ؟ اگر یہ آئل سٹی چین تعمیر کرتا تو اسے اتنا فائدہ نہیں ہونا تھا جتنا فائدہ سعودی عرب کو ہوگا۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ چین کے پاس اتنے تیل کے ذخائر نہیں کہ وہ گوادر میں آئل سٹی تعمیر کرتا اور جنوبی اور وسط ایشائی ریاستوں کو بیچتاکیونکہ چین اپنی ضرورت کا زیادہ تر تیل درآمد کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب چین کو پاکستان کی طرف سے درخواست کی گئی کہ گوادر میں سعودی عرب کو آئل سٹی تعمیر کرنے دیا جائے تو چین نے فورا ہاں کردی۔ گوادر میں سعودی عرب کی طرف سے آئل سٹی کی تعمیر کے کئی فوائد حاصل ہوں گے۔ اول یہ کہ گوادر کو سی پیک منصوبے میں ریڑھ کی ہڈی کی حثیت حاصل ہے یہاں اگر چین اور پاکستان کے علاوہ کوئی تیسرا ملک سرمایہ کاری کرتا ہے تو اس سے سی پیک منصوبہ کامیاب ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اب پاکستان اور چین کو تیل خریدنے کے لئے مغربی ایشیائی ریاستوں کے پاس نہیں جانا پڑے گا کیونکہ تیل کا وسیع ذخیرہ گوادر میں ہی موجود ہوگا۔ سوم ، پاکستان اور چین کو تیل سمندری راستوں سے بحری جہازوں کے ذریعے لانا پڑتا ہے ۔ گوادر میں آئل سٹی کے قیام سے اس جھنجھٹ ، مشکلات اور خدشات وغیرہ سے چھٹکارا ملے گا۔ چہارم، سعودی عرب جیسا اقتصادی طور پر مستحکم ملک جب پاکستان میں تیل زخیرہ کرکے دوسرے ممالک سے تجارت کرے گا تو پاکستان کو کئی فوائد حاصل ہوں گے مثلاََ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، تیل کی کمی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، دوسرے ممالک کے بحری جہاز جب گوادر میں لنگر انداز ہوں گے تو پاکستان کو محصولات کی شکل میں اضاضی ریونیو حاصل ہوگا۔کاروباری سرگرمیاں بڑھنے سے سرمایہ بھی بڑھے گا اور ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ تاجروں کے آنے سے ہوٹل کی صنعت میں ترقی ہوگی۔ حکومت غیرملکی سیاحوں کو متوجہ کرنے کے لئے گوادر کے ساحلوں کو پرکشش بنائے گی تو سیاحت کی صنعت فروغ پائے گی۔ چین ، روس سمیت مشرقی و وسط ایشیائی ریاستیں جب گوادر سے تیل خریدیں گی اور بذریعہ سی پیک اپنے ملکوں میں لے جائیں گی تو پاکستان کو محصولات کی شکل میں اضافی سرمایہ حاصل ہوگا۔ پنجم، اگلے سال جنوری سے ایران پر امریکی پابندیاں شروع ہورہی ہیں جس بابت امریکہ نے ابھی سے واضح کردیا ہے کہ بھارت کو بھی ان پابندیوں سے استثناء حاصل نہیں ۔ بھارت جوکہ اپنی ملکی ضروریات کا تقریبا 83فیصد تیل درآمد کرتا ہے وہ بھی ایران سے تیل نہیں خرید سکے گا۔ حیرت انگیز طور پر ایران پر امریکی پابندیاں پاکستان کے لئے سازگار ثابت ہونگی ۔ مثلاََ ایران گوادر بندرگاہ کے مقابلے میں بھارت کی مدد سے چاہ بہار بندرگاہ تیار کررہا ہے۔ امریکی پابندیوں سے یہ تمام سرگرمیاں رک جائیں گی جسکا فائدہ گوادر کو ہوگا۔ علاوہ ازیں بھارت جو کہ زیادہ تر ایران سے تیل خریدتا ہے امریکی پابندیوں کی بدولت اسے دوسرے ممالک کی طرف دیکھنا پڑے گا۔ لیکن جب تیل کا وسیع ذخیرہ گوادر کے مقام پر سعودی عرب لے کر بیٹھا ہوگا تو بھارت کے منہ سے بھی رال ٹپکے گی لہذا بھارت پاکستان سے بہتر تعلقات پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہ تمام تر حالات ایک اچھے مستقبل کی نوید سنا رہے ہیں۔ اول، تجارتی لحاظ سے گوادر جلد ہی اس خطے میں مرکزی حثیت حاصل کرنے والا ہے۔ دوم، گوادر ایشائی ریاستوں کے درمیان بہتر تعلقات کی بنیاد بنے گا ۔سوم ، گوادر کی بدولت جب ایشیا ء کی بڑی بڑی طاقتیں باہم یکجا ہونگی تو ترقی کے نئے مواقع پیدا ہونگے اور طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی طرف شفٹ ہوجائے گا۔ لہذا نئے پاکستان کا نیا گوادر ایک اچھے مستقبل کی نوید سنا رہا ہے۔ 

Wednesday, September 19, 2018

وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں



وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں

عمران خان کے مسند اقتدار پر بیٹھنے کے بعد عجیب و غریب چیزیں سامنے آرہی ہیں۔پہلے قوم کو بتایا گیا کہ وزیراعظم کی خدمت کے لئے 524ملازم ، سفر کے لئے کم از کم 33بلٹ پروف گاڑیاں اور چار ہیلی کاپٹر ہر وقت حاضر خدمت رہتے ہیں۔ بعدازاں یہ بات سامنے آئی کہ وزیراعظم ہاؤس میں آٹھ عدد بھینسیں بھی پائی جاتی ہیں؟جب یہ راز افشاں ہوا تو تمام انگشت بدنداں تھے کہ وزیراعظم ہاؤس میں بھینسوں کا کیا کام؟تاہم قوم کو یہ بتایا گیا کہ سابق وزیراعظم ان بھینسوں سے خالص دودھ حاصل کرتے تھے۔اس خبر سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔یہ کہ وزیراعظم کو یہ بھینسیں رکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟کیا پاکستان میں کہیں بھی خالص دودھ دستیاب نہیں کہ وزیراعظم کو بھینسیں رکھنی پڑگئیں؟ اس صورت حال میں سابقہ حکومت کی اہلیت پر سوال اٹھتا ہے۔کیا پاکستانی ادارے اتنے کمزور ہوچکے ہیں کہ ملک کے اندر حتی کہ وزیراعظم ہاؤس میں بھی خالص دودھ مہیا نہیں کرواسکتے؟یہ حقیقت آشکار ہونے پر نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ہے۔کہتے ہیں کہ قمیض اٹھانے سے اپنا ہی پیٹ ننگا ہوتا ہے۔ لیکن جب قمیض اٹھ ہی گئی ہے تو پھر بتائے دیتے ہیں کہ اس وقت پاکستانی اداروں کے حالات انتہائی دگر گوں ہیں کیونکہ کم از کم پچھلے پندرہ سالوں سے کرپشن عروج پر تھی۔جو چاہتا تھابہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیتا تھا۔ کوئی پوچھنے والا ہی نہ تھا۔ اوپر سے جعلی اور سیاسی بھرتیوں نے سرکاری اداروں کی حالت زار کو اور گہنا دیا تھا۔ سابق حکمرانوں کی سرپرستی میں منی لانڈرنگ کا کھیل کھیلا گیا جنہوں نے عوام کا پیسہ بیرون ملک منتقل کر کے اپنی اور اپنے بچوں کی جائیدادیں بنائیں۔جس گھر کا سربراہ ہی گھر کی اشیا چوری کرکے کہیں اور منتقل کرنا شروع کردے اس گھر کا اللہ ہی حافظ ہوتا ہے۔تاہم نئی حکومت کے آنے اور انکے ابتدائی اقدامات سے قوم کو تھوڑا سا حوصلہ ہوا ہے کہ کم از کم کرپشن اور منی لانڈرنگ کا کھیل تو اب رک جائے گا۔ لیکن عجیب تماشہ ہے کہ وہ لوگ جو گزشتہ ادوار میں حکمرانی کے مزے لیتے ہوئے کرپشن اور منی لانڈرنگ میں ملوث رہے وہی لوگ اب نئے وزیراعظم کی سادگی تحریک کا مزاق اڑاتے نظر آتے ہیں ۔ کوئی کہتا ہے کہ پرانی گاڑیوں کی نیلامی سے پیسے حاصل کر کے نئی حکومت ڈیم بنانا چاہتی ہے۔ "ڈیم خیرات کے پیسوں سے نہیں بنتا" ۔ وزیراعلی سندھ تو یہاں تک کہہ گئے کہ وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں بیچنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا الٹا چار سال بعد نیب کا کیس بن جائے گا تاہم اگر ان بھینسوں کا دودھ نکال کر بیچا جائے تو زیادہ رقم ہاتھ آئے گی۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملک پاکستان کو گزشتہ ادوار میں دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔اب اگر کوئی ایسا شخص آیا ہے جو چاہتا ہے کہ غربت کی ماری یہ قوم اوپر اٹھے،خوشحال بنے اور ترقی کی منازل طے کرے تو یہ ان اپوزیشن رہنماؤں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا۔ یہ ایسے ایسے مشورے دے کر وزیراعظم کا مزاق اڑا رہے کہ جسے سن کر کوئی عام آدمی بھی طیش میںآجائے۔ کیا وزیراعظم اب بھینسوں کو چارہ ڈالا کرے گا؟اگر وزیراعظم سے بھینسوں کا دودھ ہی نکلوانا ہے تو پھر وزیراعظم رکھنے کی کیا ضرورت ؟ یہی کام کوئی عام گوالا بھی اس سے سو گنا کم اجرت میں کر دیا کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان نام نہاد اپوزیشن لیڈروں کو اپنی روزی روٹی بند ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔ انہیں معلوم ہے کہ اگر عمران خان کامیاب ہوگیا تو پھر انکی کرپشن اور منی لانڈرنگ سے لتھڑی سیاست دفن ہوجائے گی۔ یہ ہر ممکن کوشش کریں گے کہ حکومت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں ۔ انکا مزاق اڑایا جائے تاکہ عوام انکو برا جانے۔ لیکن شاید انکو یہ نہیں معلوم کہ اب کی بار ان کا پالا ایک مختلف لیڈر سے پڑا ہے جو نہ خود جھکے گا اور نہ ہی قوم کو کسی کے آگے جھکنے دے گا چاہے اسکے لئے اسے وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں بیچنے جیسا ادنی کام ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ یہ ایسا لیڈر ہے جو بھینسیں گھر میں رکھ کر خود خالص دودھ حاصل کرنے کی بجائے اس بات کو یقینی بنائے گا کہ عوام کو خالص دودھ مارکیٹ میں دستیاب ہو کیوں کہ وہ ہر تقریر میں ریاست مدینہ کی مثالیں دیتا ہے اور اس پر عمل کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتا ہے۔ وہ خود کرپٹ ہے اور نہ ہی کرپشن کو برداشت کرتا ہے۔ منی لانڈرنگ کرے گا اور نہ کسی کو کرنے دے گا۔ پرانے پاکستان کے وزیراعظم نے بھینسیں رکھیں ہوئی تھیں تاکہ خود کو خالص دودھ ملے لیکن نئے پاکستان کے وزیراعظم نے وہ بھینسیں بیچ دی ہیں کیوں کہ وہ بھی وہی کچھ کھائے پیئے گا جو عوام کھا پی رہی ہے۔ یہ ہے تبدیلی

Thursday, September 6, 2018



معیار اپنا اپنا

جب سے وزیراعظم پاکستان نے ایک قادیانی کو اقتصادی کمیٹی کا ممبر بنایا ہے سوشل میڈیا پر ایک طوفان امڈ آیا ہے۔ کیا اپنے کیا پرائے سبھی تنقید کے نشتر چلا رہے ہیں۔ اس طوفان میں تیزی تب آئی جب وزیر اطلاعات نے ان تنقید کرنے والوں کو شدت پسند قرار دیا۔ تنقید کرنے والوں کا مطالبہ ہے کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے لہذا یہاں کسی قادیانی، جو غیر مسلم ہیں، کوہرگز وزیر یا مشیر نہیں لگایا جاسکتا۔ بغور دیکھا جائے تو یہاں کئی سوالات جبم لیتے ہیں۔ مثلاََحکومت اور عوام میں کون غلط ہے؟ کیا کسی قادیانی کو سرکاری عہدہ دینا گنا ہ ہے؟کیا غیر مسلموں کو پاکستان میں بنیادی و آئینی حقوق حاصل ہیں؟قادیانیوں کی آئنی و حقیقی حثیت میں کیا تضاد ہے؟ان تمام سوالات پر سوشل میڈیا پر سیر حاصل بحث ہوچکی ہے لیکن آئیے اس موضوع کو کسی اور زاویے سے دیکھتے ہیں وہ یہ کہ پاکستان میں قادیانی ایک اقلیت کا درجہ رکھتے ہیں۔ جبکہ یورپی ممالک میں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا دونوں اطراف میں اقلیتوں کو بنیادی حقوق حاصل ہیں؟پاکستان میں تمام اقلیتوں بشمول سکھ، عیسائی ، ہندو ، پارسی اور قادیانی وغیرہ کو وہ حقوق حاصل نہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہیں اگرچے آئین پاکستان میں درج ہے کہ تمام اقلیتوں کو برابرانہ حقوق حاصل ہیں اور اقلیتوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے تاہم حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ۔ سادہ سی مثال لے لیں۔ تمام بڑی سرکاری نوکریاں صرف اور صرف مسلمانوں کے لئے مختص ہیں جبکہ اقلیتوں کے لئے معمولی سا کوٹہ ۔ اس معمولی کوٹے پر بھی جو بھرتی ہوتا ہے اس سے دوسرے مسلمان آفیسران جیسا برتاؤ نہیں کیا جاتا۔ تاہم تمام ادنیٰ ملازمتوں مثلاََ خاکروب، واٹر کیرئیراور مالی وغیرہ پر اقلیتی لوگ بھرتی کیے جاتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقلیتوں کو برابری کے حقوق حاصل نہیں۔ مزید یہ کہ مسلمانوں کو اپنی مذہبی رسومات چار دیواری سے باہر بھی ادا کرنے کی کھلی اجازت ہے مگر کوئی عیسائی ، ہندو یا قادیانی اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی سرعام کھلی سڑک پر نہیں کرسکتاکیونکہ سب سے پہلے مسلمان رکاوٹ ڈالیں گے اور اسکے بعد قانون حرکت میں آجائے گا اور حفاظتی اقدامات کے نام پر اقلیتوں کو چاردیواری میں مذہبی رسومات کی ادائیگی پر مجبور کر دیا جائے گا۔ دووسری طرف یورپ میں بھی اقلیتوں کا حال پتلا ہی ہے۔9/11کے بعد سے زیادہ تر یورپی ممالک میں اقلیتی درجہ رکھنے والے مسلمانوں کی داڑھی کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔ اگر آپ نے سنت رسول رکھی ہوئی ہے اور آپکے نام کے ساتھ محمد کا لفظ بھی لگا ہوا ہے تو آپکی شخصیت اور زیادہ مشکوک ہوجائے اور ائرپورٹس پر آپلی مکمل جامع تلاشی لینے کے ساتھ ساتھ گھنٹوں طرح طرح کے سوالات پوچھے جائیں گے۔ ماضی گواہ ہے کہ پاکستان سے جانے والے ایک سابق وزیراعظم جنہوں نے ہلکی سی داڑھی رکھی ہوئی تھی انکو بھی نہیں بخشا گیا۔ علاوہ ازیں اگر آپ ایک مسلم عورت ہیں اور حجاب پہنتی ہیں اور تو آپکی زندگی اجیرن ہوجائے گی۔ بیشتر یورپی ممالک حجاب پر پابندی لگا چکے ہیں۔ لہذا اگر ایک مسلم عورت حجاب پہن کر باہرنکلتی ہے تو نہ صرف عوام کے تشدد کا نشانہ بنیں گی بلکہ قانون بھی حرکت میں آئے گا اور آپ سزا و جرمانہ کا حق دار ٹھہریں گی۔ حالانکہ حجاب پہننا ایک ذاتی و مذہبی فعل ہے اور ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن جس طرح ہم مسلمانوں نے اپنے معیار متعین کر رکھے ہیں بعینہ یورپی اقوام نے بھی اپنے معیار اپنائے ہوئے ہیں۔ جسطرح مسلمان ریاستیں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کرتی اسی طرح یورپی ممالک بھی اقلیتی حقوق سلب کرتے ہیں۔ اگر مسلمان غلطی پر ہیں تو سیدھے راستے پر یورپی اقوام بھی نہیں ۔ کسی ایک کو مورد الزام ٹھہرانا زیادتی ہوگی۔ دونوں نے اپنے اپنے معیار اپنا رکھے ہیں۔ 

Monday, September 3, 2018


پرکشش سرمایہ دارانہ ماحول کی ضرورت

دنیا کا کوئی بھی سرمایہ کار جذبات سے مغلوب ہوکر سرمایہ کاری نہیں کرتا لہذا اگر ہم یہ سوچیں کہ وزیراعظم پاکستان کی پہلی تقریر سن کر اندرون و بیرون ملک مقیم پاکستانی سرمایہ کار اپنا سرمایہ دھڑا دھڑ پاکستان لانا شروع کردیں گے تو یہ ہماری خام خیالی کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہونے والا۔ کاروبار ہمیشہ نفع و نقصان کی بنیاد پر چلتا ہے سرمایہ کار کو جہاں نفع نظر آئے گا وہیں سرمایہ لگائے گا۔ جہاں نقصان کا اندیشہ ہوگا وہاں سے ہاتھ کھینچ لے گا۔ اسی پیمانے کا مدنظر رکھتے ہوئے آئیے جانچتے ہیں کہ سرمایہ کار اپنا سرمایہ پاکستان کیونکر لائیں گے؟کسی بھی کاروبار کے لئے سب سے بنیادی چیز پرامن ماحول کا دستیاب ہونا ہے۔ کیا پاکستان ایک پرامن ملک کے طور پر جانا جاتا ہے ؟جی نہیں ۔ پاکستان کی تمام سیکیورٹی ایجنسیاں بشمول فوج ہمہ وقت دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ اگرچہ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے مگر ٹوٹی کمر کے ساتھ بھی دہشت گرد گاہے بگاہے ہمارے دانت کھٹے کرتے رہتے ہیں۔ ہر ہفتے نہیں تو ہر مہینے کہیں نہ کہیں دہشت گردانہ کاروائیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ ذراسوچیں ایسے ماحول میں کوئی سرمایہ کار کیسے اپنا سرمایہ پاکستان لائے گا۔ دوسری بات یہ کہ سرمایہ کار اپنا پیسہ ہمیشہ وہاں لگاتا ہے جہاں سیاسی استحکام ہو۔ ایک گورنمنٹ اپنی ٹرم پوری کرکے جائے تو اگلی حکومت سابقہ حکومت کی پالیسیوں کو جاری رکھے۔ لیکن پاکستان میں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ یہاں ہر حکومت عدم استحکام کا شکار رہتی ہے ۔پہلے تو یہ کہ حکومت اور اپوزیشن کی آپس میں نہیں بنتی اس پر مستزاد یہ کہ اکثرو بیشتر ایک تیسری قوت آبراجمان ہوتی ہے۔ ایسی صورتحال سرمایہ کار کو اپنا سرمایہ لگانے سے مانع رکھتی ہے۔ سوم، رشوت اور کرپشن پاکستانی معاشرے کا ناسور بن چکے ہیں۔ اگرچہ نئی حکومت کے کرپشن اور رشوت بازاری کے خاتمے کے اعلی عزائم ہیں تاہم ابھی پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزرنا ہے۔ پاکستان میں کاروبار کی بڑھوتری کے لئے سرکاری بابوؤں کے ساتھ ساتھ سیاسی طاقتوں کی مٹھیاں بھی گرم کرنی پڑتی ہیں۔ جس سے اخراجات بڑھ جاتے ہیں اور پیداواری لاگت میں اضافہ ہوتا ہے اور سرمایہ کار مارکیٹ میں موجود دوسری کمپنیوں سے مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہتا مزید یہ کہ اپنا جائز کام کروانے کے لئے بھی سرمایہ کاروں کو جگہ جگہ نذرانے دینا پڑتے ہیں۔ جس سے صحت مندانہ سرمایہ کارانہ سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ چہارم، پاکستان میں لوڈشیڈنگ کا مسئلہ بہت سنگین ہے۔ یہ لوڈشیڈنگ خواہ بجلی کی ہو یا گیس کی دونوں صورتوں میں سرکایہ کار کو پریشانی لاحق رہتی ہے مزید یہ کہ بجلی مہنگی ہونے سے پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے اور قیمت فروخت میں اضافہ ناگزیر ہوجاتا ہے۔ جبکہ خریدار مارکیٹ میں دستیاب سستی چیزوں کو ترجیح دیتا ہے۔ پنجم، پاکستان میں سرمایہ کاروں کو سب سے بڑا مسئلہ چین کی پیداکردہ سستی مصنوعات کا سامنا کرنا ہے۔ جو چیز پاکستان میں سو روپے میں بن کر مارکیٹ میں آتی ہے چین وہی چیز آدھی قیمت میں تیار کر کے مارکیٹ میں لے آتا ہے۔ ایسی صورتحال میں سرمایہ پاکستان لانا سرمائے کو ڈبونے کے مترادف ہے۔ اگر پاکستان سرمایہ کاروں کو اپنی طرف راغب کرنا چاہتا ہے تو پہلے سرمایہ داروں کے لئے پرکشش ماحول پیدا کرے جہاں انکے کاروبار کے پھلنے پھولنے کے یکساں مواقع موجود ہوں بصورت دیگر احمقوں کی جنت میں رہنے پر کوئی پابندی نہ ہے۔