Sunday, March 25, 2018

Lifafa Sahafat


لفافہ صحافت کے نام

‏‎(میراثی)
شہر میں شادی، بیاہ
ہو نہ ہو
مجھے جو بھی
سو دو سو
دیتا ہے
اسکے نام کا ڈنکا
پورے شہر میں بجا دیتا ہوں
مجھے ایمانداری یا غیر جانبداری سے کیا کام
(عفی علی)

انصاف کی فراہمی


Saturday, March 24, 2018

Insaf ki Frahmi


انصاف کی فراہمی

جنگ عظیم دوئم کے دوران جب جرمن طیارے برطانیہ کے دارالحکومت لندن پر شدید بمباری کررہے تھے تو کسی نے برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کو ان گنت اموات اور معاشی تباہی کے بارے میں بتایا۔ تاہم ونسٹن چرچل نے پریشان ہونے کی بجائے پوچھا کیا ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں اور عوام کو بروقت انصاف مل رہا ہے؟ جواب ملا جی ہاں ، عدالتیں اپنا کام ٹھیک کر رہی ہیں۔ تو چرچل نے کہاخدا کا شکر ہے ۔اگر عداتیں ٹھیک کام کر رہی ہیں تو پھر فکر نہ کریں ۔کچھ بھی غلط نہیں ہوگا۔ بالفرض اگر یہی سوال موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی پوچھے جبکہ پاکستان جنگ کی حالت میں بھی نہیں تو جواب ملے گا کہ نہیں جناب عدالتیں اپنا کام ٹھیک طرح سے سرانجام نہیں دے رہیں ۔انصاف کی فراہمی کا حال تو یہ ہے کہ ملک کاتین دفعہ کے منتخب شدہ وزیراعظم کو نااہل کر دیا گیا اور وہ سڑکوں پر پوچھتا پھرتا ہے کہ مجھے کیوں نکالا؟جبکہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سمیت تمام حکمران پارٹی کو بھی سا بق وزیراعظم کی نااہلی کا یہ فیصلہ منظور نہیں۔ دوسری طرف کسی بھی غریب آدمی کو عدالتوں پر اعتماد نہیں کہ انصاف ملے گا کیونکہ عام تاثر یہی ہے کہ اگر آپ نے کیس جیتنا ہے تو وکیل کی بجائے جج کرلو مطلب جج سے لین دین کر لو۔ بظاہر پاکستان کی عدلیہ ان دنوں فعال نظر آتی ہے تاہم یہ صرف نظر کا دھوکہ ہے۔ملک کی اعلی عدلیہ صرف ان مقدمات پر سوموٹو ایکشن لے رہی ہے جو میڈیا کی زینت بنتے ہیں۔ جو واقعات و مقدمات میڈیا کی توجہ حاصل نہیں کر پاتے وہ عدلیہ کی نظر سے بھی گر جاتے ہیں اس لئے بروقت انصاف کے حصول میں ناکام رہتے ہیں۔ پاکستان کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار صاحب قسمیں کھاتے نظر آتے ہیں کہ آئندہ الیکشن 1973ء کے بعد ملکی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات ہونگے اور مزید یہ کہ احتساب سب کا ہوگا مگر کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں۔ وجہ سادہ سی ہے کہ ستر سال سے عوام کے دلوں میں عدالتوں کے بارے میں یہ تاثر قائم ہے کہ ہماری عدالتوں سے انصاف نہیں ملتا۔ خود چیف جسٹس آف پاکستان نے ایک معروف کالم نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہا کہ میں اپنی عدالتوں کے ہاتھوں مجبور ہوں۔ ججز ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں لیکن مقدمات کی سنوائی نہیں کرتے۔ میں انکو خدا کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ کام کرو۔ ملک کا چیف جسٹس جب خود کہہ رہا ہے کہ میں اپنی عدالتوں کے ہاتھوں تنگ ہوں تو پھر آپ خود اندازہ لگا لیں کہ ملک میں انصاف کی فراہمی کا کیا حال ہوگا۔ ایک طرف جج صاحبان کام کرنے کو تیار نہیں تو دوسری طرف عدالتوں میں ججز کی تعداد بھی پوری نہیں جبکہ کیسوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ججز جب مقدمات کا انبار لگا دیکھتے ہیں تو وہ ویسے ہی ہمت ہار دیتے ہیں۔ لہذا ہماری عدالتیں ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ پاکستان میں اس وقت ہر دس لاکھ آبادی کے لئے بارہ ججز کام کر رہے ہیں جبکہ انڈیا میں اتنی ہی آبادی کے لئے اٹھارہ، برطانیہ اکیاون اور امریکہ میں ایک سو پانچ ججز موجود ہیں۔ سیکریٹری لا ء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق اس وقت سپریم کورٹ اور اعلی عدالتوں میں ججز کی تعداد 146ہے جبکہ 167آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ خدا کی پناہ ۔ ملک کی اعلی عدالتوں میں جتنے ججز کام کر رہے ہیں ان کی کل تعداد سے زائد ججز کی آسامیاں ویسے ہی خالی پڑی ہیں۔ تو پھر ایسی صورت میں انصاف کی بروقت فراہمی کیسے ممکن ہوسکتی ہے۔ چھوٹی عدالتوں میں فی جج روزانہ 150سے 200کیسز روزانہ دیکھنے پڑتے ہیں ۔جس کے لئے فی کیس صرف ڈیڑھ منٹ موجود ہوتا ہے ۔ اتنے سے وقت میں تو کوئی جج ٹھیک طرح سے سانس بھی نہیں لے سکتا وہ مقدمہ کیا سنے گا۔ ڈیڑھ منٹ کا ٹائم تو فائل کو اٹھانے، میز پر رکھنے اور اسکا خلاصہ پڑھنے میں ہی صرف ہوجاتا ہے تو ایسی صورتحال میں جج سنوائی کیا کرے گا اور فیصلہ کیسے دے گا۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں اس وقت دس لاکھ کیسز زیرالتواء ہیں۔جبکہ ججز کی تعداد 398ہے ۔اس حساب سے فی جج ایک ہزار مقدمات کو دیکھنا پڑتا ہے جوکہ تقریبا ناممکن ہے۔ سب سے زیادہ زیرالتواء کیسز کے حساب سے لاہور ہائی کورٹ پہلے ، سندھ ہائی کورٹ دوسرے، پشاورہائی کورٹ تیسرے ، بلوچستان ہائی کورٹ چوتھے اور اسلام آباد ہائی کورٹ پانچویں نمبر پر ہے۔ ملک میں انصاف کی فراہمی کی حالت انتہائی دگرگوں ہے۔ جن معاشروں میں انصاف نہیں ملتا وہ معاشرے طاقتور ترین فوج رکھنے کے باوجود بھی زیادہ دیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاتے لہذا حکومت وقت کو چاہیے کہ انصاف کی بروقت فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے ججز کی تمام خالی آسامیوں کو ہنگامی بنیادوں پر پرُ کرے اور جہاں مزید عدالتوں کے قیام کے ضرورت ہے وہاں نئی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔ علاوہ ازیں ججز حضرات پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنی ڈیوٹی ذمہ داری سے سرانجام دیں کیونکہ تالی دونوں ہاتھوں سے ہی بجتی ہے۔ اگر آپ حکومت کو موردالزام ٹھہراتے رہیں گے کہ کیسز بہت زیادہ ہیں اور ججز کی تعداد کم ہے جبکہ خود ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے تو ایسی صورت میں نقصان غریب عوام کا ہی ہوگا۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ تمام ادارے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اپنا کام دیانتداری سے انجام دیں۔ 

Thursday, March 15, 2018

اختلافِ رائے کو عزت دیجئے


اختلافِ رائے کو عزت دیجئے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف کے منہ پر دوران تقریر سیاہی پھینک دی گئی ۔اگلے ہی دن لاہور کے ایک مدرسہ میں میاں محمد نوازشریف پر جوتا اچھالا گیا۔جہلم میں عمران خان کوایک شخص نے جوتا مارنے کی ناکام کوشش کی جبکہ گجرات میں علیم خان کو جوتا مارا گیا۔ یہ سب کیا ہے؟یہ دراصل پاکستان میں آجکل اختلافِ رائے کے اظہار کا ذریعہ ہے جو کہ اخلاقی طور پر انتہائی گھٹیااور ناپسندیدہ ذریعہ ہے۔ یوں تو جوتے مارنے کا یہ سلسلہ خواجہ آصف سے شروع ہوا ہے تاہم اسکے تانے بانے فیض آباد کے مقام پر ایک مذہبی تحریک کے دھرنے سے جا ملتے ہیں۔یہ مذہبی جماعت تقریباََ بیس یوم اس مقام پر دھرنہ دے کر بیٹھی رہی اور اس دوران اس جماعت کے مقررین نے افواج پاکستان ، عدلیہ ، حکومت وقت اور اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف وہ دشنام طرازی کی کہ خدا کی پناہ ۔دھرنے کے خلاف کریک ڈاؤن کے نتیجے پر جب انتشار پورے ملک میں پھیلا تو عسکری قیادت کو میدان میں کودنا پڑا اور ایک معاہدے کے تحت یہ دھرنا اختتام پذیر ہوا۔ بالآخر حکومت وقت کو ان کے مطالبات مانتے ہوئے ختم نبوت شق میں کی گئی تبدیلی واپس لینا پڑی۔ ’’ختم نبوت ‘‘ کا معاملہ مسلمانان پاکستان کے لئے دکھتی رگ کی حثییت رکھتا ہے۔ جو کوئی اس معاملے کو چھیڑنے کو کوشش کرتا ہے مذہبی طبقہ انکے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ ماضی میں پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر اسی معاملے کو چھیڑنے کی بدولت اپنے گارڈ کے ہاتھوں ہی قتل ہوئے جبکہ ن لیگ کے دور حکومت میں جب اس قاتل کو پھانسی دی گئی تو مذہبی طبقے نے پھر آسمان سر پر اٹھا لیا تھا ۔ آج ن لیگ کی قیادت پر اس مذہبی تحریک کی طرف سے دو بڑے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ اول، ن لیگ کی حکومت نے ممتاز قادری (گورنر سلمان تاثیر کا قاتل)کو پھانسی دی۔ دوئم ن لیگ کی حکومت نے ختم نبوت کی شق کو تبدیل کرنے کی جسارت کی ۔ ان دو بڑے اقدامات کی بدولت اس مذہبی تحریک کے ممبران کی طرف سے خواجہ آصف پر سیاہی پھینکی گئی اور میاں نوازشریف پر جوتا اچھالا گیا۔ تاہم مذہبی طبقے کی طرف سے اختیار کیا جانے والا یہ طریقہ غیراخلاقی ہونے کے ساتھ ساتھ غیر اسلامی بھی ہے کیونکہ نبی اکرمؐپر کوڑا پھینکا گیا۔ آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، حتی کہ طائف کی وادی میں پتھر تک برسائے گئے مگر آپ نے جوابا انکو نازیبا الفاظ تو کجا انکو بددعا بھی نہیں دی بلکہ دعا دی کہ اے اللہ انکو ہدایت دے ۔جبکہ اس مذہبی تحریک کے رہنما ہمیں احادیث سے ڈھونڈ ڈھونڈ کے بتاتے ہیں کہ دیکھیں فلاں صحابی نے گالی دی۔ توگالی دینا جائز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ناموس رسالت کی آڑ میں یہ مذہبی طبقہ تششد د کو ہوا دیکر اپنے ذاتی مفاد ات کا تحفظ کر رہا ہے۔ انکی کوشش ہے کہ ناموس رسالت کے نام پرایک بڑی تعداد کو اپنے پیچھے لگا کر کسی نہ کسی طرح اقتدار کی سیڑھی تک پہنچا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس مذہبی تحریک نے ایک سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لینا شروع کر دیا ہے۔اور یہ کسی حد تک کامیاب بھی ہورہے ہیں۔ اور مزید کامیابیاں حاصل کرنے کے لئے یہ مذہبی راہنما لوگوں کوتششدد پر اکسا رہے ہیں۔ اختلاف رائے انکے نزدیک ایک بری چیز ہے۔ جو لوگ انکے عقائد و نظریات سے متفق نہیں یہ ان پر دشنام طرازی کرتے ہیں اور اپنے چاہنے والوں کو اکساتے ہیں کہ مخالفین کو قتل کرو ، تششدد کرو، انکے منہ پر سیاہی اور جوتا وغیرہ پھینکو۔ان مذہبی راہنماؤں سے میرا صرف ایک سوال ہے وہ یہ کہ نبی اکرم ؐ کی زندگی سے ثابت کریں کہ آپ ؐ نے کبھی تششد د کو ہوا دی ہو یا اختلاف رائے کو عزت نہ دی ہو۔ آپ ؐ کی زندگی کا مکی دورہمیں یہ درس دیتا ہے کہ جب تم مغلوب ہو تو زندگی کیسے گزارنی ہے اور مدنی دور یہ سکھاتاہے کہ جب تم اقتدار میں ہو تو زندگی کیسے گزاری جائے ۔حضور ؐ کی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ آپ ؐ نے نہ صرف اختلافِ رائے کو اہمیت دی بلکہ اپنے سخت ترین مخالفین اور دشمنوں کے لئے سرِعام معافی کا اعلان کیا۔ جبکہ ہم لوگ آج اسی نبی ؐ کے نام پر لوگوں کوقتل کر رہے ہیں ، انکے منہ پر سیاہی ڈال رہے ہیں اور جوتے اچھا ل رہے ہیں۔ یہ ہم کس دین کے پیروکار ہیں۔ ہم کس راہ پر چل پڑے ہیں۔ ہمارے مذہبی و سیاسی راہنماؤں کو مل بیٹھ کر سوچنا ہوگا کہ تششد د اور انتشار کسی مسئلہ کا حل نہیں ہوتا۔ اگر آپکو کسی کی رائے سے اختلاف ہے تو اس کو اہمیت و عزت دیں ناں کہ اسکی جان لے لیں۔ میاں محمد نوازشریف کا آجکل بیانیہ ہے کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘لیکن ووٹ کو عزت دینا ایک سیاسی معاملہ ہے اور ہر شہری کا آئینی و قانونی حق ہے جسے وہ چاہے استعمال کرے یا نہ کرے۔ تاہم اختلافِ رائے کولازمی عزت دیجئے کیونکہ یہ ہمارا اخلاقی، آئینی، قانونی اور اسلامی فریضہ ہے۔ 

Thursday, March 8, 2018

Dual Nationality


اس حمام میں سب ننگے ہیں

وہ کھل کھلا کے ہنسا اور بولا

بھائی ہماری تو پاکستان میں بھی عیش ہے اور ملک سے باہر بھی
ہم یہاں اکیسویں گریڈ کی مراعات لے رہے ہیں
اور ہمارے بچے امریکہ میں رہائش پذیر 
ہماری دہری شہریت کا فائدہ لے رہے ہیں۔
آپکو ڈر نہیں لگتا؟ دوست نے متجسس نظروں سے سوال کیا
افسر پھر قہقہہ لگا کے ہنسا اور بولا
میرے معصوم دوست ! اس حمام میں سب ننگے ہیں 
خواہ وہ جنرلزہیں، جج حضرات، سیاستدان یا بیوروکریٹس۔


Sunday, March 4, 2018

اگلی باری کس کی ہے؟

کہتے ہیں کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔ اس وقت ن لیگ اقتدار میں ہے لہذا نوازشریف کی طاقت کا صحیح اندازہ لگانا ممکن نہیں کیونکہ جو پارٹی اقتدار میں ہوتی ہے اسے حکومتی مشینری کی مدد حاصل ہوتی ہے ۔علاوہ ازیں ہمارے اقتدار کے بھوکے سیاستدان ہمیشہ چڑھتے سورج کو سلام کرتے ہیں۔لہذا نوازشریف اگلا الیکشن جیت کے حکومت بنا سکیں گے یا نہیں اسکا اندازہ لگانا فی الحال ممکن نہیں۔ تاہم ماضی کی حکومتوں کے حالات و واقعات کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ن لیگ اگلی حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہوپائی گی۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ جب پرویز مشرف نے نوازشریف کی حکومت ختم کی تو تمام ابن الوقت نوازشریف کا ساتھ چھوڑ کر مشرف کی جمہوری ٹرین میں سوار ہوگئے جبکہ خود میاں صاحب اور انکے بھائی خاندان سمیت مشرف سے دس سالہ معاہدہ کرکے جدہ جا بیٹھے۔جب دوبارہ واپس آئے تو مشرف کے حمایتی انہی سیاستدانوں کو ساتھ ملایا اور حکومت بنا لی۔اس وقت بھی ایسے ابن الوقت سیاستدان موقع کی تاک میں ہیں اور اس حکومت کے خاتمے یا اسٹیبلشمنٹ کے اشارے کا انتظار کر رہے ہیں۔ جونہی کوئی اشارہ ملا یہ پرندے اڑ کر عمرانی شاخوں پر جا بیٹھیں گے ۔ اسی لئے فی الحال یہ کہنا کہ نواشریف کا بیانیہ کامیاب ہورہا ہے سراسر غلط ہے۔ ابھی میاں صاحب کے اقتدار کا سورج غروب نہیں ہوا ۔ جونہی شام ڈھلی اور نگران حکومت کا چاند طلوع ہوا یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ اگلی باری کس کی ہے۔