Friday, August 31, 2018



کیا وزیراعلیٰ پنجاب نااہل ہوجائیں گے؟

وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کا نام جیسے ہی پنجاب کی وزارت عظمی کے لئے نامزد کیا گیا انکے ستارے گردش میں آگئے تھے۔ ان پر قتل کے مقدمے میں ملوث ہونے کے الزامات سامنے آئے جو بعد ازاں جھوٹے ثابت ہوئے۔ لیکن وزارت عظمی کی گدی پر بیٹھنے کے بعد موصوف ایک بار پھرالزامات کی زد میں آگئے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ اب کی بار جو معاملہ سامنے آیا ہے وہ جھوٹا نہیں ہے بلکہ حقیقت پر مبنی ہے اور پچھے کئی دنوں سے میڈیا اور سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے یہاں تک کہ اس معاملے پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی سوموٹو نوٹس لے لیا ہے اور سپریم کورٹ میں اسکی سماعت بھی شروع ہوچکی ہے۔ یہ معاملہ دراصل چار اشخاص خاور مانیکا ( خاتون اول بشری بی بی کے سابقہ شوہر)، ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل، آئی جی پنجاب کلیم امام اور وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کے گرد گھومتا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ بشری ٰ بی بی کے خاتون اول بننے کی خوشی میں انکی بیٹی جو اپنے والد خاور مانیکا کے ساتھ رہتی ہے ، ننگے پاؤں پاکپتن میں بابا فرید کے دربار پر حاضری کے لئے جارہی تھی کہ پولیس کو خبر ملی کہ خاتون اول جارہی ہے تو سیکیورٹی دینے جاپہنچے ۔ پولیس والوں کو جب معلوم ہوا کہ یہ خاتون اول نہیں ہے تو سیکیورٹی دینے کی بجائے انہوں نے خاتون اول کی بیٹی کو تنگ کیا حتی کہ ہاتھ تک پکڑا۔ یہ تمام واقعہ جب ڈی پی او رضوان کے نوٹس میں آیا تو انہوں نے اسکی کوئی انکوائری نہیں کروائی اور نہ ہی کوئی ایکشن لیا۔ ڈی پی او رضوان گوندل کا یہ پہلا قصور تھا۔ اسکے بعد ایک اور واقعہ رونما ہوا جب خاور مانیکا کو ایک ناکے پر روک کر اس سے بدتمیزی کی گئی۔ اس واقعے کی بھی ڈی پی اونے کوئی انکوائری نہیں کروائی جو کہ انکا دوسرقصور تھا۔ دونوں معاملات کس طرح وزیراعلی پنجاب کے نوٹس میں آئے یہ حقیقت ابھی افشاں نہیں ہوئی ۔تاہم جیسے ہی یہ واقعات وزیراعلی کے نوٹس میں آئے انہوں نے ڈی پی او کو اپنے دفتر طلب کیا جہاں انکے دوست احسن جمیل گجر جوکہ خاتون اول بشریٰ بی بی کی سہیلی فرح کے خاوند بھی ہیں، موجود تھے۔ اس میٹنگ کے بعد رات کو ایک بجے آئی جی پنجاب کے طرف سے رضوان گوندل کو انکی ذمہ داریوں سے سبقدوش کرکے او ایس ڈی بنا دیا گیا۔ جیسے ہی ڈی پی او کی سبقدوشی کا نوٹی فکیشن جاری ہوا میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھونچال آگیا ۔ اگر ان واقعات کے کردار کوئی عام شخصیات ہوتیں تو اتنا بھونچا ل نہ آتا لیکن چونکہ اس واقعہ میں خاتون اول، اسکی بیٹی اور سابقہ شوہر کا نام آرہا تھا اس لئے سب سے زیادہ ہاٹ خبر بن گئی۔ جیسے جیسے خبر پھیلتی گئی تنقید کے تیروں کی سمت وزیراعلی پنجاب کی طرف مڑتی گئی ۔یہاں تک کہ معاملہ سپریم کورٹ جا پہنچا ہے جہاں کم از کم یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ وزیر اعلی پنجاب اپنے پہلے ٹیسٹ کیس میں ناکام ہوگئے ہیں کیونکہ ڈی پی او رضوان گوندل کو او ایس ڈی بنوانے میں وہ براہ راست ملوث ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کیس کی سماعت کے دوران ججز نے عدالتی معاون مخدوم علی خان سے معاونت طلب کی ہے کہ وزیراعلی پنجاب نے پبلک آفس ہولڈر ہوتے ہوئے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہے تو کیا انکو آرٹیکل 62(1)Fکے تحت نااہل کیا جاسکتا ہے۔ اب کیس کی اگلی سماعت سوموار کو ہوگی جس میں خاورمانیکا کے ساتھ ساتھ وزیراعلی پنجاب کوبھی طلب کیا گیا ہے ۔جہاں انکو جواب دہ ہونا پڑے گا کہ انہوں نے اپنا سیاسی اثرورسوخ کیوں استعمال کیا۔ اگرچہ صاف نظر آرہا ہے کہ وزیراعلی پنجاب اس کیس میں پھنس چکے ہیں اور آرٹیکل 62(1)Fکے تحت تاحیات نااہل قرار دیے جاسکتے ہیں مگر ٹھہریے یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ کوئی حتمی نتیجہ اخذکرنے سے پہلے تصویر کا دوسرا پہلو بھی دیکھ لیتے ہیں۔ ایڈیشنل آئی جی انویسٹی گیشن ابوبکرخدابخش جو کہ ایک ایماندار آفیسر گردانے جاتے ہیں وہ بھی عدالت میں پیش ہوئے ۔ انہوں نے حلفاََ کہا کہ انکی انکوائری میں ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کئی معاملات میں غلط بیانی کے مرتکب پائے گئے ہیں۔ مثلاََ خاتون اول کی بیٹی اور انکے سابقہ شوہر خاور مانیکا کے ساتھ پولیس ملازمان کی بدتمیزی والا معاملہ انہوں نے اپنے سینئر آفیسران سے چھپایا اور ان سے غلط بیانی بھی کی۔تصویر کا ایک رخ دیکھیں تو وزیراعلی ٰ کی نااہلی پکی نظر آتی ہے۔ لیکن جب تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں تو عیاں ہوتا ہے کہ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کو تاحیات نااہل نہیں کیا جائے گا۔ اسکی دو وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ کیس کا اصل کردار ڈی پی او رضوان گوندل خود جھوٹ اور غلط بیانی کا مرتکب پایا گیاہے۔ دوم، عثمان بزدار نہ صرف سیاستدان نیا ہے بلکہ وزیراعلی بھی پہلی دفعہ منتخب ہوا ہے ۔مزید یہ کہ اسکو حلف اٹھائے ابھی چند دن ہی گزرے ہیں۔ لہذا اعلی عدلیہ انکو نااہل کرنے کی بجائے کم ازکم ایک موقعہ ضرور دے گی۔ بادی ء النظرمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کیس کا فیصلہ اس سے ملتا جلتا ہی آئے گا تاہم یہ طے ہے کہ وزیراعلی پنجاب اپنے پہلے ٹیسٹ کیس میں ناکام ہوگئے ہیں۔ 

Tuesday, August 21, 2018

قربانی کا کوئی متبادل نہیں


خوشی کے آنسو


تاریخ گواہ رہے گی


نیا پاکستان:توقعات، خدشات اور امکانات


نیا پاکستان:توقعات،خدشات اورامکانات

وزیراعظم کا حلف اٹھانے کے بعد عمران خا ن کاقوم سے اپنا پہلا خطاب روایتی طریقے سے ہٹ کر تھا۔ اپنوں کے ساتھ ساتھ مخالفین نے بھی داد دی مگر صرف الفاظ کی بنیاد پر دل جیتے جا سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی قوم ترقی کی منازل طے کرپاتی ہے۔ ترقی کے زینے پر چڑھنے کے لئے بڑی تک و دو کرنی پڑتی ہے۔ اگرچہ نیا پاکستان وجود میں آچکا ہے مگر اصل مسئلہ اسکا نظم و نسق چلانا ہے۔ قرضوں میں ڈوبے ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ جیب میں پیسہ نہ ہو تو کوئی عزت کرتا ہے اور نہ ہی کاروبار ۔ ہر طرف سے دھتکار ملتی ہے۔ اب یہ وزیراعظم اور اسکی ٹیم کا امتحان ہے کہ انہوں نے قوم سے جو وعدے کیے تھے کیا اس پر عمل پیرا بھی ہوتے ہیں یانہیں۔ عمران خان بڑے زوروشور سے پچھلے دس سالوں سے بالعموم اور پانچ سالوں سے بالخصوص عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ پاکستان کا اصل مسئلہ کرپٹ حکمران ہیں۔ اگر ملک کا حکمران ایماندار اور کرپشن سے پاک ہوگا تو ملک دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرے گا۔لہذا اب کی بار عوام نے عمران خان کے بیانیے پر سرتسلیم خم کرکے ملک کی باگ دوڑ انکے ہاتھ میں تھما دی ہے کہ یہ لو اب کرکے دکھاؤ جو کہتے آئے ہو۔ اگرچہ ابھی حکومت کا ہنی مون پریڈ شروع ہوا ہے مگر عوام کی توقعات آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ انہیں انتظار ہے تو صرف اس بات کا کہ عمران خان نے جو سو دن کا پلان دیا تھا اس پر وہ کس حد تک عمل پیرا ہوتاہے۔ جیسے میدانی علاقے کی نسبت پہاڑی علاقوں میں ترقیاتی کام کرنا قدرے مشکل ہوتا ہے بالکل ایسے ہی ایک کرپشن سے پاک ملک کی نسبت کرپشن سے تباہ حال ملک کو بام عروج تک پہنچانا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ اگرچہ عمران خان نے وزیراعظم ہاؤس کو تیاگ کر اچھی شروعات کی ہے مگر ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔ ابھی تو بیوروکریسی کے بابوؤں سے پالا نا پڑنا ہے جو قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کریں گے۔ اسکے ساتھ ساتھ ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے اچھے تعلقات استوار کرنا پڑیں گے ورنہ عمران خان کا حال نوازشریف سے بھی براہوگا۔سوم، علاقائی طاقتوں بالخصوص، امریکہ اور چین کے درمیان چل رہی سرد جنگ میں کس پلڑے میں اپنے باٹ ڈالنے ہیں یہ معاملہ یہ بھی طے کرے گا کہ مستقبل میں حکومت اور فوج کے درمیان کیسے تعلقات استوار ہونگے۔ اس وقت پاکستانی فوج کا جھکاؤ چین کی طرف ہے ۔ بادل نخواستہ اگر حکومت نے اپنا جھکاؤ امریکہ کی طرف کیا تو پھر حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات میں دیوار حائل ہوجائے گی۔ تاہم ابھی تک وزیراعظم کا جھکاؤ چین کی طرف نظر آرہا ہے۔ جس سے کم از کم یہ حوصلہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں سول ملٹری کھنچاتانی نہیں ہوگی یا کم ہوگی۔ چہارم، حکمران پارٹی کو چونکہ واضح اکثریت حاصل نہیں اس لئے پارلیمنٹ سے کوئی قانونی بل پاس کروانے میں بہت دشواری ہوگی مثلا تحریک انصاف نے پنجاب میں جنوبی صوبہ پنجاب محاذ سے معاہدہ کررکھا ہے کہ حکومت میں آکر جنوبی صوبہ پنجاب کوایک علیحدہ صوبہ بنائیں گے۔ تاہم چونکہ حکومتی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل نہیں اسلئے یہ وعدہ وفا ہوتا نظر نہیں آتا ۔پنجم،وزیراعظم نے "احتساب سب کا "کا جو نعرہ لگایا ہے اس پر عمل کرنا انتہائی دشوار ہوگا۔ کیونکہ تحریک انصاف نے جن اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کے حکومت بنائی ہے وہ بھی کوئی دودھ کے دھلے نہیں ہیں۔ حتی کہ تحریک انصاف کے کئی ایسے وزراء اور ممبران اسمبلی ہیں جن پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ لہذا احتساب کے عمل کو آگے بڑھانے کے لئے ضروری ہوگا کہ اپنے اور اتحادی جماعتوں کے ممبران اسمبلی کو بھی کٹہرے میں لایا جائے۔ ششم، احتسابی عمل کے دوران جب اپوزیشن کے لیڈروں اور اراکین اسمبلی کے گرد شکنجہ کسا جائے گا تو وہ شور مچائیں گے کہ ہم سے سیاسی انتقام لیا جارہا ہے۔ چونکہ دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کے خلاف کرپشن کے الزامات ہیں اس لئے وہ حکومت کی ناک میں دم کرنے کے لئے ہرممکن کوشش کریں گے۔ ہفتم، اڈیالہ جیل میں مقیدسابق وزیراعظم میاں نوازشریف اور اسکی بیٹی مریم نوازکے نام حکومت نے ای سی ایل میں ڈالنے کا اعلان کرکے اور مفرور اشتہاریوں سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار، حسن اور حسین نواز کو واپس لانے کا عندیہ دے کر ن لیگ کو ایجی ٹیشن بڑھانے پر اکسایا ہے جس سے مشکلات پیدا ہونگی۔ مزید یہ کہ وزیراعظم نے بیرون ملک پڑا منی لانڈرنگ کا پیسہ وطن واپس لانے کے لئے ایک ٹاسک فورس قائم کردی ہے تو اس سے بھی حکومت کے لئے مشکلات بڑھیں گی کیونکہ ملک کی دوبڑی پارٹیوں کے لیڈروں کے ساتھ ساتھ بے شمار بڑے بڑے لوگوں بشمول جرنیلوں، ججوں، سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کا کالادھن بیرون ملک پڑا ہے جو قدم قدم پر روڑے اٹکائیں گے۔ ہشتم، وزیراعظم نے کرپشن مکاؤ مہم اور سادگی تحریک شروع کرکے اپنے حمایتیوں کے لئے بھی مشکلات کھڑی کر دی ہیں کیونکہ ہر حمایتی عمران خان نہیں۔ ان حمایتیوں کو رشتے داریاں بھی نبھانی ہیں اورسیاسی اثرورسوخ بھی ۔اپنے علاقوں میں ترقیاتی کام بھی کروانے ہیں اور مخالفین کو نیچا بھی دکھانا ہے جس کے لئے انہیں ان دونوں مہمات کی نفی کرنا پڑے گی۔ بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ عمران خان وزارت عظمی کی کرسی کو زیادہ دیر سنبھال نہیں پائیں گے مگر خان کا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ اس نے ہر ناممکن کو ممکن کردکھایا ہے۔ لہذا اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ نیا پاکستان جو معرض وجود میں آچکا ہے وہ ترقی کی منازل طے کرتے کرتے ایسے مقام تک پہنچ جائے کہ کوئی زکوۃ لینے والا نظر نہ آئے۔