Sunday, June 24, 2018

Looty

لوٹے۔
پروین شاکر نے کہا تھا "وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا، بس یہی بات اچھی ہے میرے ہرجائی کی''۔بقول شاعرہ ایک ''لوٹا''کہیں بھی جاسکتا ہے۔ایک سے دوسرے حاجت خانے میں یا ایک سے دوسری پارٹی میں مگر اسکی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ واپس لوٹ آتا ہے۔اگرچہ لوٹا ہرجائی ہوتا ہے مگر اسکی دل لبھانے والی ادا یہی ہے کہ یہ واپس ضرورآتا ہے۔


دنیا لوٹے کو لاکھ براکہے مگرلوٹے کی بھی کوئی عزت ہوتی ہے۔ اُتنی ضرورت لوٹے کو ہماری نہیں ہوتی جتنی ہمیں لوٹے کی ہوتی ہے کیونکہ لوٹا نہ ہو تو ہم حاجت خانوں کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں۔لوٹے سے ہماری راحت ہے اور لوٹا ہی ہماری صفائی ستھرائی کا بہترین ذریعہ بلکہ ضامن ہے ۔ اکثر ایسے بھی حادثات رونما ہوئے ہیں کہ انتہائی ایمرجنسی میں حاجت خانے میں پہنچے ۔دیکھا توپانی ندارد ۔ پیٹ پر ہاتھ رکھے افسردگی کے عالم میں صفائی خانے سے باہر نکلنے ہی لگے تھے کہ اچانک لوٹے پر نظر پڑی تو یہ جان کر راحت محسوس ہوئی کہ لوٹا بھرا ہوا ہے۔ پودوں کو پانی دینے کے لئے اگر پائپ نہ ملے تو لوٹا ، زیر تعمیر گھر میں اینٹوں کو پانی لگانا ہو تو لوٹا، گھر کے باہر گھڑی گاڑی دھونے کے لئے کچھ بھی دستیاب نہ ہو تو لوٹا اور بعض اوقات تو ایسا بھی ہوا ہے کہ نہانے کے لئے اگر کوئی مناسب چیز نہیں ملی تو لوٹے سے سر پر پانی ڈال کر خود کو غلاظتوں سے نجات دلائی ۔ جب ایک حقیر سا لوٹا اتنا کارآمد ہے کہ ہر برے وقت میں کام آتا ہے تواسے برا کیوں کہیں؟ بری تو وہ چیزیں ہیں جو گھر میں ہوتے ہوئے بھی عین وقت پر دستیاب نہیں ہوتیں یا ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتیں۔جبکہ لوٹے کو ڈھونڈنا ہوتو جھٹ سے حاجت خانے میں جاؤ ، لوٹا حاضر ہے۔



پلیٹ ٹوٹ جائے تو کچرہ اور گلاس ٹوٹ جائے تو کانچ کا ڈھیر بن جاتا ہے مگر لوٹے کا کمال یہ ہے کہ لوٹا ٹوٹ کر بھی لوٹا ہی رہتا ہے ۔ایک اور خوبی جو صرف لوٹے میں ہی نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ لوٹا بعد از مرگ بھی کام آتا ہے۔ لاش کو کفن پہنانے سے پہلے غسل دیا جاتا ہے تو یہی لوٹا ہی استعمال ہوتا ہے اگرچہ یہ لوٹا نیاہوتا ہے مگر لوٹا لوٹا ہی ہوتا ہے چاہے نیا ہو یا پرانا۔لاش کو منوں مٹی تلے دفنانے کے بعد قبر کی مٹی پر پانی ڈالنے کے لئے بھی یہی لوٹا ہی استعمال میں آتا ہے ۔



لوٹے کئی رنگ کے ہوتے ہیں سفید، بھورے، کالے، سبز ، نیلے اور پیلے وغیرہ ۔ رنگ کے لحاظ سے ان میں کوئی تقسیم نہیں پائی جاتی مگر ذات پات کا نظام انکے ہاں بھی رائج ہے ۔لوٹا پلاسٹک کا ہو تو سمجھو کہ غریب کا ہے، پیتل کا ہو تو کسی کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے لیکن سونے کا لوٹا زیادہ تر بادشاہوں کے محلات میں پایا جاتا ہے۔ 



کچھ لوٹے مذہبی بھی ہوتے ہیں۔ تبلیغی جماعت اپنا سامان باندھے کہیں جارہی ہو تو اس میں جو چیزسب سے نمایاں اور چکمدار ہوتی ہے وہ مذہبی لوٹے ہی ہوتے ہیں۔عام طور پرحاجت خانوں کے لوٹوں کو مساجد کے اندر جانے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن مذہبی لوٹے کمال ہوشیاری سے تبلیغی جماعت کے ممبران کے سامان کے ساتھ نتھی ہوکر مساجد کے یخ ٹھنڈے کمروں میں استراحت فرماتے پائے گئے ہیں۔معلوم نہیں ان مذہبی لوٹوں میں ایسی کونسی خوبی ہے کہ انکی مساجد کے اندر موجودگی کسی کو بھی ناگوار نہیں گزرتی جبکہ حاجت خانوں کے لوٹوں کو ہمراہ لے کر آپ مساجد کی دہلیز بھی پار نہیں کر سکتے۔



مشرف دور کی ایک بے بنیاد کہانی جو مذہبی لوٹوں کے بارے میں مشہور ہوئی وہ یہ ہے کہ لاہور کے نواحی علاقے رائے ونڈ کے پاس ایک مذہبی جماعت کا عظیم الشان اجتماع منعقد ہورہا تھا ۔ ایک دن اچانک سابق آرمی چیف پرویز مشرف کو امریکہ سے کال آئی کہ انکے سیٹلائیٹ نے لاہور کے قریب بموں کے ایک بہت بڑے زخیرے کا سراغ لگایا ہے ۔پرویز مشرف کووہ تصاویر ای میل بھی کی گئیں جو بظاہر بموں کا ایک بہت بڑا زخیرہ ہی معلوم پڑتا تھا۔ پاکستان آرمی فوری حرکت میں آئی ۔ مطلوبہ جگہ کو جاکر چیک کیا گیا تو حقیقت یہ سامنے آئی کہ وہ بموں کا ڈھیر نہیں بلکہ مذہبی لوٹوں کا زخیرہ تھا جو سیٹلائیٹ سے بموں کا زخیرہ دکھائی دے رہا تھا۔ ان مذہبی لوٹوں کے زخیرے کی تصاویر امریکہ کو ای میل کی گئیں تو انکل سام کی جان میں جان آئی۔ مطلب اگر یہ مذہبی لوٹے اکٹھے ہوجائیں تو امریکہ بہادر کی بھی دوڑیں لگ جاتی ہیں۔ 



اللہ تعالی نے ہر چیز کا متضاد ضرور پیدا کیا گیا۔مثلا گرمی اور سردی، دن اور رات، صبح اورشام۔ اس حساب سے مذہبی لوٹوں کا متضاد لبرل لوٹے بنتا ہے مگر لوٹوں کی یہ قسم ناپید ہے اسکی وجہ شاید یہ کہ لبرل لوگوں کو لوٹوں کی بجائے نوٹوں کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ لوٹے رتبے کے لحاظ سے اعلی درجے پر فائز ہوتے ہیں کیونکہ انکو زیادہ تر پیروں ، مرشدوں اور راہبوں کے ہاتھوں میں دیکھا جاتا ہے۔ شاگردوں اور مریدین کے نزدیک یہ لوٹے انتہائی مقدس ہوتے ہیں اسی لئے وہ انہیں دل و جان سے عزیز رکھتے ہیں کہ اگر یہ گم ہوگئے تو بھر پیر ومرشد کے جلال کی تاب نہ لائی جاسکے گی۔ 



لوٹوں کی ایک قسم انسانی روپ میں بھی نظر آتی ہے۔جب کوئی شخص وفاداری تبدیل کر کے کسی دوسری پارٹی ، جماعت یا گروہ میں شمولیت اختیار کر لیتا ہے تو اسے لوٹا کہا جاتا ہے۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ لوٹا بننے کی صلاحیت ہر شخص میں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے مگر لوٹا بننے کی اصل اور بنیادی شرط وفاداریاں تبدیل کرنا اور اسکا علی الاعلان اظہار کرناہے ۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص وفارداریاں تبدیل کرلے مگر اس تبدیلی کا کھلم کھلا اظہار نہ کرے تو وہ لوٹا کیوں نہیں کہلاتا ؟شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ ایسا شخص لوٹے سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے اسلئے اسے لوٹے کا لقب دینے کی بجائے آستین کا سانپ لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ 

اس دھرتی پر اللہ تعالی نے کوئی بھی چیز بے مقصد پیدا نہیں کی ۔جب ہر پیدا کی گئی چیز کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے تو پھر انکی قدر کی جانی چاہیے ناں کہ انکی تذلیل کی جائے یا انہیں حقیر جانا جائے۔ لوٹا بھی ان تخلیقات میں سے ایک ہے۔ اسکی تخلیق کے ان گنت مقاصد ہیں جن میں چند ایک درج بالا سطور میں گنوائے گئے ہیں۔لہذا جنتا سے اپیل ہے کہ لوٹوں پرآوازے کسنے اور انکی تذلیل کرنے کی بجائے انہیں عزت دو۔