Sunday, March 10, 2019

جس میں شرم و حیا نہیں


کیا کشمیر کی آ زادی تک ادھار بند رہے گا؟


کیا کشمیر کی آ زادی تک ادھار بند رہے گا؟ 
بچپن سے پاکستان میں مختلف دکانوں پر یہ نوٹس آویزاں دیکھتے آرہے ہیں کہ کشمیر کی آزادی تک ادھار بند ہے یعنی جب تک کشمیر آزاد نہیں ہوتا کسی کو سودااُدھار نہیں مل سکتا ۔ ماضی میں برصغیر کے حالات کچھ اسطرح کہ تھے دکانداروں کوبغوبی علم تھا کہ کشمیر کی آزادی ممکن نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ وہ یہ نوٹس آویزاں کرتے تھے لیکن جب سے مودی سرکار آئی ہے اور ہندؤں کو سرکاری سرپرستی میں اقلیتوں پر ظلم ڈھانے کا لائسنس ملا ہے تب سے کشمیر میں بھی حالات بدل گئے ہیں ۔

روس نے جب افغانستا ن پر حملہ کیا تھا تو امریکہ اور سعودی عرب نے پاکستان میں جہادیوں کی فصل تیار کی ۔روس کی شکست کے بعد یہ جہادی انڈیا کے درپے ہو گئے اور کشمیر کی آزادی کے لیے تگ و دو کرنے لگے ۔کشمیر تو کیا آزاد ہوتاالٹا کشمیریوں پر بھارتی ظلم و ستم اور بڑھ گیا۔ لیکن نو گیارہ کے واقعے کے بعد چونکہ ساری دنیا میں مسلح جدوجہد خواہ وہ غلط تھی یا صحیح دہشت گردی قرار دے دی گئی اس لئے مجبوراپاکستان میں بھی جہادی تنظیموں کو کالعدم قرار دے کر پابندی لگا دی گئی جس سے کشمیریوں کو مسلح حمایت ملنا بند ہو گئی۔لیکن اسکے باوجود بھی تمام دنیا کی انگلیاں پاکستان کی طرف اٹھنا شروع ہو گئیں کہ یہ دہشت گردوں کا سہولت کا ر ملک ہے لہذا پاکستان بیک فٹ پر چلا گیا۔ 

بھارت میں نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد کشمیریوں پر بھارتی فوج کے ظلم و ستم میں اضافہ ہوا تو کشمیر ی جو کہ جہادیوں کی مسلح جدوجہد پہلے ہی کھو چکے تھے انکے پاس سوائے ہتھیار اٹھانے کے کوئی اور آپشن نہیں بچا تھا لہذاکشمیری نوجوان جہادی بننے لگے۔ بعدازاں برہان وانی کی شہادت نے کشمیر کی تحریک کو ایک نئی جلا بخشی ۔ لیکن مسئلہ کشمیر کو ساری دنیا میں اہمیت پلواما واقعہ کے بعد ملی جب ایک کشمیری نوجوان عادل ڈار نے بھارتی فوجیوں کے کانوائے پر خود کش حملہ کیا اور 44بھارتی فوجیوں کو جہنم واصل کیا۔ بھارت نے اس واقعہ کا ذمہ پاکستانی تنظیم جیش محمد کو ٹھہرایا اورپاکستان کو اپنے فوجیوں کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لئے للکارہ۔ یوں برصغیر پاک و ہند کے حالات یکسر تبدیل ہو گئے ۔ ماضی میں جنگی حالات تب بنتے تھے جب پاکستانی جہادی تنظیم کوئی کاروائی ڈالتی تھی، پاکستانی فوج کوئی قدم اٹھاتی تھی یا پھر انڈین آرمی کوئی شر انگیزی کرتی تھی لیکن اس بار جنگی ماحول ایک کشمیری نوجوان عاڈل ڈار کی وجہ سے بنا ہے۔
ایک کشمیری لڑکے کی بدولت برصغیر کی ڈیڑھ ارب آبادی جوہری جنگ کے نرغے میں آگئی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ کشمیری جدوجہدکا سورج عروج پر ہے ۔ پلواما واقعہ کے بعد رونما ہونے والے حالات نے ساری دنیا پر عیاں کر دیا ہے کہ اگر کشمیریوں کو ان کی مرضی کے مطابق آزادی نہ ملی تو پھر بھارت سکون سے رہ سکتا ہے اور نہ ہی پاکستان۔ اگرچہ پاکستان نے ریاست کے اندر موجود تمام جہادی و دہشت گرد افراد و تنظیموں پر پابندی لگا دی ہے اور ان کے مدرسوں و سکولوں کو سرکاری تحویل میں لے لیا ہے لیکن بھارت پھر بھی کشمیر میں ہونے والی تمام کاروائیوں کا الزام پاکستان پر دھرتا رہے گا۔ اور یوں پاکستان اور بھارت کے مابین جنگی حالات بنتے رہیں گے۔
پلواما حملے کے بعد سے بھارت کے اندر بسنے والے کشمیریوں پر انتہا ء پسند ہندوؤں کے تشدد نے کشمیریوں کے دلوں میں انکے خلاف نفرت کو بڑھاوا دیا ہے ۔اگر بھارتی شہری پلوامہ جیسے حملوں کی آڑ میں کشمیریوں پر ظلم و تششدد کریں گے تو ان کے پاس سوائے ہتھیار اٹھانے کے کوئی آپشن نہیں بچے گا۔ لہذا ایسے واقعات سے کشمیر میں مسلح جدو جہد کرنے والے کشمیری مسلمانوں کی حمایت میں اضافہ ہوگا جس سے بھارتی فوج کے نقصانات بڑھتے جائیں گے اور نتیجے کے طور پر پاکستان کو بھارتی دھمکیوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ لہذا یہ امر واضح ہے کہ مسئلہ کشمیر اب صحیح معنوں میں آتش فشاں بن چکا ہے جو کسی بھی وقت پھٹے گا اور ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ باقی دنیاکو بھی ہلا کر رکھ دے گا ۔اس بات کا ادراک تو اب انٹرنیشنل میڈیا بھی کرنے لگا ہے کہ جوہری جنگ کا اتنا خطرہ شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان نہیں جتنا پاکستان اور بھارت کے مابین ہے۔ لہذا بھارت کو اب کشمیریوں کو آزادی دینا پڑے گی وگرنہ تباہی و بربادی بر صغیر کا مستقبل ہے۔ چونکہ اب کشمیر کی آزادی کا سورج طلوع ہونے والا ہے اسی لئے پاکستانی تاجر وں کو یا تو اپنے گاہکوں کواُدھار سودا دینا پڑے گا یا پھر اپنی دکانوں میں کشمیر کی آزادی سے متعلق آویزں نوٹس ہٹانے پڑیں گے۔ 

Pulwama Attack and Consequences.


پلوامہ حملہ اور نتائج
مسئلہ کشمیر کو اندر ہی اندر کھولتے ایک آتش فشاں سے تشبیع دی جاتی ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اور کم از کم بھارت اور پاکستان میں آباد ڈیڑھ ارب آبادی کو بری طرح متاثر کرسکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ چودہ فروری کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ہونے والے خود کش حملے کے بعد سے برصغیر کی سیاست میں بھونچال سا آیا ہوا ہے۔ایک نوجوان کشمیری لڑکے کے ردعمل نے تقریبا ڈیڑھ ارب آبادی کی زندگیاں داؤ پر لگا دی ہیں۔مستقبل میں اس خود کش حملے کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا تاہم ذیل میں ہم ان چیدہ چیدہ نتائج کا ذکر کریں گے جو اب تک رونما ہوچکے ہیں۔ 
پلوامہ حملے کا سب سے اہم اور خطرناک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ برصغیر کا علاقہ ایک بڑی اور خوفناک جنگ کے میدان میں بدلنے سے بال بال بچا ہے۔ بھارت میں ایک دو ماہ بعد انتخابات ہونے جارہے ہیں لہذا بھارت سرکار کو کوئی ایسا ایشو درکار تھا جسکا راگ الاپ کر وہ اپنی عوام کو بے وقوف بناتی اور انکے جذبات ابھار کر انکے ووٹ بٹورتی ۔ یہ موقع پلوامہ خودکش حملے نے بہم پہنچایا لیکن بھلا ہو وزیراعظم پاکستان عمران خان کا جس نے صلح جوئی کا راستہ اپنا کر ناصرف اس خطے کو جنگ کے شعلوں سے بچایا بلکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا اصل روپ بھی دنیا کو دکھایا۔ 

پلوامہ حملے کا دوسرا اہم نتیجہ پاک بھارت میڈیا کا کردار ہے جو اس واقعے کے بعد کھل کر سامنے آیا ہے۔ اس واقعے سے قبل بھارتی میڈیا کو بڑا معتبر سمجھا جاتا تھا اور پاکستانی میڈیا کو ہمارے اپنے ہی لبرل قسم کے لوگ تنقید کا نشانہ بناتے رہتے تھے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کا پٹھو بن چکا ہے۔ لیکن پلوامہ حملے نے صورتحال کو بالکل بدل کے رکھ دیا ہے۔ جو لوگ پہلے پاکستانی میڈیا پر تنقید کے نشتر چلاتے رہتے تھے اب وہی پاکستانی میڈیا کے امن کے داعی ہونے کی تعریفیں کررہے ہیں۔جبکہ اس واقعے کے بعد بھارتی میڈیا کا اصل چہرہ بھی پوری دنیا کے سامنے عیاں ہوچکاہے۔ ساری دنیا جان چکی ہے کہ بھارتی میڈیا اس وقت ایک بھوکے کتے کا کردار نبھا رہا ہے جسے صرف اور صرف گوشت اور ہڈی کی پرواہ ہے۔ اسے یہ پرواہ نہیں کہ اسکی لگائی ہوئی آگ سے برصغیر کا علاقہ تباہ برباد ہوسکتا ہے ۔ انہیں صرف اپنی ٹی آر پی اور پیسوں سے غرض ہے۔ 
اس واقعے نے پاک وبھارت افواج کی طاقت و استعداد اور جنگی تیاریوں کی بھی قلعی کھول کے رکھ دی ہے۔ پلوامہ حملے میں چوالیس بھارتی فوجیوں کے مرنے کے بعد مودی نے پاکستان سے بدلا لینے کی ٹھان لی تھی جسکے لئے بھارتی فوج نے نام نہاد سرجیکل سٹرائیک ۔ٹو کروایا ۔ اوریہ دعوی کیا گیا کہ بھارتی فوج نے پاکستان میں موجود پلوامہ حملے کی ذمہ دار دہشت گرد تنظیم جیش محمد کے ٹریننگ کیمپوں پر حملہ کرکے ساڑھے تین سو جہادی مار دئیے ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس نکلی ۔ بین الاقوامی میڈیا نے بھی بھارتی نام نہاد سرجیکل سڑائیک کا مذاق اڑایا کیونکہ بھارت کے پاس اس سٹرائیک کا کوئی ثبوت نہ تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ بھارتی لڑاکا طیاروں نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور خیبر پختونخواہ کے علاقے بالا کوٹ میں خالی جہگوں پر بم گرا کر واپس بھاگ گئے جس سے کئی درختوں کو نقصان پہنچا۔ لیکن فضائی حدود کی اس خلاف ورزی نے پاکستانی عوام میں بے چینی پیدا کردی تھی جسکی بدولت پاکستانی فوج کی طرف سے ردعمل آنا قدرتی امر تھا۔ تاہم پاکستانی فوج نے جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی قدم اٹھانے کی بجائے ہوش کے ناخن لئے اور بھارت کو متنبع کیا کہ اس حملے کا جواب ضرور دیا جائے گا لیکن وقت اور جگہ کا تعین پاکستان کرے گا۔ پاکستان کی اس للکار نے ایک بار پھر بھارتی فوج کو بھڑکا دیا جس کی بدولت بھارتی طیاروں نے ایک بار پھر پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی لیکن اس بار پاکستان پہلے سے تیار بیٹھا تھا۔ نتیجتاََ دو بھارتی طیارے اور ایک چاپر ہیلی کاپڑ تباہ ہوا اور ایک بھارتی پائلٹ گرفتار ہوا۔ جسے بعد ازاں غیر مشروط طور پر بھارت کے حوالے کردیا گیا۔ یہ واقعہ دنیابھر میں بھارت کے لئے جگ ہنسائی کا موجب بنا کیونکہ ایک ہی دن میں پاکستان نے بغیر سرحدی خلاف ورزی کئے دو بھارتی طیاروں کو مارگرانے اور ایک پائیلٹ کو گرفتار کرکے پروفیشنلزم کا ثبوت دیا جبکہ بھارت فوج کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ 
پلوامہ حملے سے قبل پاکستان میں سیاسی صورتحال انتہائی کشیدہ تھی۔ وزیراعظم ، وزراء اور حکومتی ترجمان اپوزیشن کو کرپشن کے نام پر لٹارتے نظر آتے تھے جبکہ دوسری طرف اپوزیشن متحد ہوکر حکومت کو آڑے ہاتھوں لینے کے خواب دیکھ رہی تھی۔یہ صورتحال عوام میں بھی پائی جاتی تھی کہ سیاسی طور پر لوگ دو ڈھڑوں میں بٹے ہوئے تھے ۔ ایک دھڑا حکومتی پارٹی کو سپورٹ کررہا تھا جبکہ دوسرا دھڑا اپوزیشن کے شانہ بشانہ دکھائی دیتا تھا۔ لیکن جونہی پلوامہ حملے کے بعد بھارتی جہازوں نے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی، تمام سیاسی تقسیم پل بھر میں غائب ہوگئی اور عوام و سیاستدان سب نے بیک زبان ہوکر بھارت کو للکارا۔ جس سے یہ واضح ہوگیا کہ پاکستانی آپس میں جیسے چاہے لڑیں لیکن جب ملکی سلامتی پر حرف آتا ہے تو سب اختلافات بھلاکر سیسہ پلائی دیوار بن جاتے ہیں۔ 
پلوامہ حملے نے بھارتی معاشرے کی تقسیم کی بھی قلعی کھول کررکھ دی ہے کیونکہ اس واقعے کے بعد بھارتی معاشرہ اکٹھا ہونے کی بجائے دو دھڑوں میں تقسیم نظر آیا۔ ایک دھڑا جو عقل و شعور کھتا ہے اس نے پاکستانی ردعمل کو جانچا ، پرکھا اور اسکے بعد اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ پاکستانی جنگ نہیں بلکہ امن چاہتا ہے لیکن دوسرا دھڑا جسکی تعداد پہلے دھڑے سے کئی گنا ہے وہ میڈیا کی پھیلائی ہوئی آگ میں جل کر پاکستان سے بدلا لینے کا راگ الاپنے لگا۔ لیکن پاکستانی سابقہ فاسٹ باؤلر اور موجودہ وزیراعظم عمران خان کی نپی تلی باؤلنگ نے بھارتی وزیراعظم کو کلین بولڈ کردیا جس سے بھارتی عوام کے بدلا لینے کی خواہش پر اوس پڑگئی۔ 
پلوامہ حملہ دراصل بھارت سرکار کا دوبارہ اقتدار میں آنے کے لئے ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا لیکن بھارتی حکومت کی تمام تدبیریں الٹ ہوگئیں کیونکہ اس حملے کے بعد رونما ہونے والے واقعات نے ایک طرف بھارت کے دہشت گردانہ عزائم کو بے نقاب کیا اور دوسری طرف پاکستان کا ایک صلح جو ریاست کا امیج ابھارا۔ بظاہر دیکھا جائے تو پلوامہ واقعے کا پاکستان کو نقصان ہونے کی بجائے فائدہ ہوا ہے جبکہ بھارت کے لئے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوا ہے۔