Thursday, January 18, 2018

Don't fear of Trump's threats.


Tex fraud of Telecom companies


ٹیلی کام کمپنیوں کی ٹیکس چوری

پاکستان میں اس وقت موبائل فون صارفین کی کل تعداد چودہ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور ان صارفین کو ٹیلی کام کی سروسز مہیا کرنے والی کمپنیوں کی کل تعداد چار ہے جو نہ صرف ہرایک کال بلکہ ایس ایم ایس،کال پیکج، انٹرنیٹ پیکج اور حتی کہ کارڈلوڈ کروانے پر بھی ٹیکس کاٹ رہی ہیں اور عوام کا خون چوس رہی ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آیا عوام کا خون چوسنے والی یہ جونکیں گورنمنٹ کو وہی کچھ دے رہی ہیں جو وہ صارفین سے ٹیکسز کے نام پہ وصول کرتی ہیں؟تو جناب اسکا جواب نفی میں آئے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان چار وں ٹیلی کام سروس مہیا کرنے والی کمپنیوں سے ٹیکسز کا حساب لینے اور آڈٹ کرنے کا کوئی میکنزم ایف بی آر کے پاس ہے اور نہ ہی پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اٹھارٹی کے پاس ہے۔ اسکا تمام تر فائدہ ان چار کمپنیوں کو جار ہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ میکنزم جان بوجھ کر نہیں بنایا گیاتاکہ ان کمپنیوں کو مالی فائدہ ہو اور ایف بی آر اور ٹیلی کمیونیکیشن کے افسران کی جیبیں گرم ہوںیا پھر متعلقہ ادارے غفلت کی نیند سور رہے ہیں۔ اس آڈٹ میکنزم کی عدم موجودگی کی وجہ سے موبائل فون آپریٹرز صارفین سے زیادہ ٹیکس وصول کرتے ہیں جبکہ ایف بی آر کو کم رقم ٹرانسفر کرتے ہیں۔ یہ گھپلا کیسے سامنے آیا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ ایف بی آر نے حال ہی میں ایک آئی ٹی بیسڈ پورٹل بنایا اور چاروں ٹیلی کام سروس مہیا کرنے والی کمپنیوں سے کہا کہ صارفین کا ڈیٹا اس پورٹل پر اپ لوڈ کریں مگر چاروں کمپنیوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ رینگتی بھی کیوں۔ برسوں سے وہ صارفین کا بلا شرکت غیرے خون چوسنے میں مصروف ہیں۔ اب اگر کوئی انکو آکر کہے کہ حساب دو تو وہ آنکھیں تو دکھائیں گی۔ لہذا چاروناچار ایف بی آر کو ٹیلی کمیونیکیشن اٹھارٹی سے مدد کی درخواست کرنا پڑی۔ ٹیلی کمیونیکیشن اٹھارٹی کی مداخلت سے ہی یہ ممکن ہوا کہ ان کمپنیوں نے ایف بی آر کو صارفین کا ڈیٹا مہیا کرنے شروع کیا۔ اس ڈیٹا مہیا کرنے کی دیر تھی کہ گھپلے سامنے آنے لگے ہیں۔ مثال کے طور پر ٹیلی نار کمپنی نے جب اس پورٹل پر اپنا ڈیٹا اپ لوڈکیا تو معلوم ہوا کہ اس کمپنی نے جولائی تا دسمبر 2017تک 267ملین روپے اضافی ٹیکس صارفین سے وصول کیا مگر گورنمنٹ کے خزانے میں جمع نہیں کروایا۔ یہ تمام معلومات ایف بی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ودہولڈنگ)محمو د اسلم نے سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی کے سامنے رکھیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001کے تحت ٹیلی نار کمپنی سے جواب طلبی کی گئی ہے۔ کمیٹی کو مزید بتایا گیا کہ ٹیلی کام کمپنیاں صارفین کو اوورچارج کررہی ہیں جبکہ ٹاک ٹائم کم دیا جا رہا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ الزامات ثابت کرنا ممکن نہیں کیونکہ ایف بی آرکے پاس آڈٹ کرنے کا کوئی خاص میکنزم ہی موجود نہیں۔ لہذا ن چاروں کمپنیوں کو کھل کھیلنے کو موقع ملا ہوا ہے۔ تاہم ایف بی آر نے جو نیا ویب پورٹل بنایا ہے وہ ان کمپنیوں کونکیل ڈالنے کی ایک چھوٹی سے کوشش ہے۔ یہ آئی ٹی بیسڈ ویب پورٹل ایف بی آر کو اس قابل بنا دے گا کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر ہر کمپنی سے ڈیٹا اکٹھا کرے اور وڈہولڈنگ ٹیکس کی کٹوٹی کا آڈٹ کرے۔ اس پورٹل کی مدد سے پچھلے پانچ سال کی ٹیکس کٹوٹی کا حساب لگانا بھی ممکن ہوگیاہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ کمپنیاں جو کئی سالوں سے پاکستان میں بزنس کررہی ہیں صرف پچھلے پانچ سال کا حساب دیں گی۔ اور جو وہ کھاچکی ہیں اسکا کیا؟خیر بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی۔ ایف بی آر اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی بند ہوجانے والی ٹیلی کام کمپنی انسٹافون سے ابھی تک واجب الاد ا رقم 160ارب روپے نہیں نکلوا سکے تو ان چاروں کمپنیوں سے اتنی بڑی ٹیکس چوری کی رقوم کیسے نکلوا سکیں گے۔ ابھی تو صرف ایک کمپنی کا صرف پانچ ماہ کا ریکارڈ چیک کرنے پر 267ملین روپے ٹیکس چوری سامنے آئی ہے ۔ اگر چاروں کمپنیوں کا پچھلے پانچ سال کا آڈٹ کیا گیا تو بات اربوں کھربوں تک جا پہنچے گی۔ خدارا یہ کیسا ملک ہے جہاں جونکیں قوم کا خون چوس رہی ہیں اور ان جونکوں کو پکڑنے والے یا تو انہی کے ساتھ ملے ہوئے ہیں یا پھر غفلت کی نیند سورہے ہیں۔ ایف بی آر کے مطابق ان چاروں کمپنیوں نے 89بلین روپے سیلز ٹیکس کی مد میں اور 62بلین روپے انکم ٹیکس کی مد میں حکومت کو ادا کرنے ہیں مگر اداکرنے کی بجائے انہوں نے کورٹ میں چلنج کیا ہوا ہے۔ اب ہماری عدالتوں میں کیس ایک بار چلا جائے تو سالوں تک فیصلہ نہیں ہوتا۔ فرض کریں اگر فیصلہ جلدی اور گورنمنٹ کے حق میں ہوجاتا ہے تو اتنی بڑی رقم ان کمپنیوں سے نکلوانا بھی ایک الگ مسئلہ ہے۔ ہمارے ملک کا نام اگر پاکستان کی بجائے مسائلستان رکھ دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ 

Tehrik-e-Adal


Solution


Panama case and current situation


Khan will change Pakhton's history.


Nawaz's Tension


Khamini Should learn from Saudi Rulers


How to improve Police?


Afghan Refugees