Monday, April 30, 2018

جینا اگر ذلت ہے



جینا اگر ذلت ہے تو مر کیوں نہیں جاتے؟ 
کرسی چھن گئی ہےتو اتر کیوں نہیں جاتے؟ 
روز دہراتے ہو مجھے کیوں نکالا کی گردان؟
نکالے گئے ہو اگر تو گھر کیوں نہیں جاتے؟

Sunday, April 22, 2018

سوشل میڈیا کی عدالت



سوشل میڈیا کی عدالت

جب سے موبائل فون سستے اور انٹرنیٹ کی سہولت گھر گھر پہنچی ہے پاکستان میں ایک نئی عدلیہ کا وجود عمل میں آیا ہے جسے سوشل میڈیا کی عدالت کہتے ہیں۔ یہ عدالت اپنی ساخت، کام کرنے کے طریقوں حتی کہ اصول وضوابط کے لحاظ سے بھی باقی تمام عدالتوں سے منفرد ہے۔ عام پاکستانی عدالتوں کی ایک خاص ہیت ہوتی ہے۔ اس میں امیدوار ایک مخصوص مقابلے کا امتحان پاس کر کے ججز تعینات ہوتے ہیں تاہم سوشل میڈیا میں ہر وہ انسان جج ہے جسکے ہاتھ میں موبائل ہے یا جسکی رسائی سوشل میڈیا تک ہے۔ عام عدالتوں میں ججزخاص اصول و ضوابط کے پابند ہوتے ہیں اگر کوئی ان قوانین کو توڑتا ہے تو سزا کا حق دار ٹھہرتا ہے تاہم سوشل میڈیا کی عدالت کسی قسم کے اصول وضوابط کی پابند نہیں ہوتی۔ جسکے منہ میں جو آتا ہے وہ بھول یا لکھ دیتا ہے۔ عام عدالتوں میں ملزم کو اپنے دفاع کا پورا پورا موقع دیا جاتا ہے۔ ثبوتوں اور گواہوں کی روشنی میں مخالفین اگر جرم ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو پھر ملزم کو مجرم ڈکلئیرکیا جاتا ہے۔ جبکہ سوشل میڈیا کی عدالت میں ملزم کو صفائی کا موقع دینا تو درکنار اس سے یہ بھی پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی کہ آیا ملزم کو اپنے اوپر عائد الزام کا پتہ بھی ہے یا نہیں کیونکہ اکثر ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ ملزم راتوں رات پوری دنیا میں مجرم مشہور ہوگیا جبکہ خود مجرم کو نہیں پتا کہ اس سے کیا گناہ سرزد ہوگیا ہے۔ سوشل میڈیا پر مجرم ثابت ہوجانے کے بعد کوئی جا کر مجرم کو بتاتا ہے کہ تم سے فلاں جرم سرزد ہوچکا ہے جس پر وہ بیچارا ہکا بکا رہ جاتا ہے۔ عام عدالتیں جب کسی کو سزا دیتی ہے تو یہ مخصوص مدت کے لئے ہوتی ہے مثلاََ ایک ،پانچ یا دس سال وغیرہ لیکن سوشل میڈیا کی عدالت سزا کی بجائے روگ دیتی ہے ۔ اور یہ روگ دو چار سال کا نہیں بلکہ عمر بھر کا روگ ہوتا جس سے مر کر ہی جان چھوٹ سکتی ہے۔ عام عدالتوں کے ججز کو تنخواہیں ، مراعات اور مخصوص چھٹیاں ملتی ہیں جبکہ سوشل میڈیا کے ججز مختلف کیٹیگریز کے ہوسکتے ہیں ۔ پیڈ ورکر، رضاکار، سیاسی و غیرسیاسی، مذہبی و غیر مذہبی، محب وطن و غداربچے وبوڑھے، مرد اور عورتیں وغیرہ سب شامل ہیں۔ نیز انکے کام کرنے کے مخصوص اوقات کار نہیں ہوتے ۔ یہ جب مرضی اپنی دستیاب سہولت کو استعمال کرتے ہوئے اپنا فیصلہ جاری کرسکتے ہیں۔یہ جب چاہیں جتنی لمبی چھٹی چاہیں انجوائے کرتے ہیں اور جب انکا من کرتا ہے کام پر واپس آجاتے ہیں۔ عام عدالتوں میں پولیس مجرم کو عدالت میں پیش کرتی ہے ، متاثرین کیس عدالت میں دائر کرتے ہیںیاعدالت عالیہ از خود نوٹس لیتی ہے اور کیس کی شنوائی کے بعد ایک مخصوص فیصلہ جاری کیا جاتا ہے۔ تاہم سوشل میڈیا عدالت میں مجرم کی پیشی ضروری نہیں۔ لاکھوں بلکہ کروڑوں ججز میں سے کوئی ایک از خود نوٹس لے کر فیس بک، ٹویٹریا دوسری ویب سائٹس پر کیس شیئر کرتا اور پھر کروڑوں کی تعداد میں فیصلے صادر ہوتے ہیں۔عام عدالتوں میں عدم پیشی کی بنا پر مجرم کو اشتہاری قرار دیا جاتا ہے اور اسکا نام ای سی ایل میں ڈالا جاسکتا ہے تاہم سوشل میڈیا عدالت میں ملزم کی پیشی ضروری ہے اور نہ ہی گواہی بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ملزم زندہ ہی نہ ہو مگر پھر بھی اس پر الزامات کی بوچھاڑ کرکے اسکے مجرم ڈکلیئر کر دیا جاتا ہے۔ عام عدالتوں میں مجرم کو ہتھکڑی پہنائی جاتی ہے اور اسکے خلاف استعمال ہونے والے ثبوتوں کی باقاعدہ سائنسی لیب سے جانچ پڑتا ل ہوتی ہے مگر سوشل میڈیا کی عدالت میں ملزم کا ایک تحریری بیان، آڈیوو وڈیوکلپ، تصویر یا کوئی ٹویٹ ہی کافی ہوتی ہے اسے مجرم ثابت کرنے کے لئے۔ عام عدالتوں میں ججز ایک مخصوص علاقے میں ایک مخوص جگہ بیٹھ کر عدالتی کاروائی آگے بڑھاتے ہیں جبکہ سوشل میڈیا کے ججز علاقائی حدود سے آزاد ہونے کے ساتھ ساتھ مادرپدر آزادی کے حامل بھی ہوتے ہیں۔ وہ جسکی چاہیں اور جب چاہیں زندگی تباہ کرکے رکھ دیں انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔ عام عدالتوں میں مجرم کو اپیل کا حق دیا جاتا ہے تاہم سوشل میڈیا کی عدالت میں ایسا حق کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ ہر انسان ایک مخصوص سوچ اور نظریات کا حامل ہوتا ہے مجرم خواہ لاکھ ثبوت پیش کردے سوشل میڈیا کے ججز اپنی سوچ و نظریات کے مطابق ہی فیصلہ دیتے ہیں۔

Wednesday, April 18, 2018

افغانستان کے بارے میں امریکی جنزلز کیا غلط سوچتے ہیں؟






امریکی جنرل جان نیکلسن ماضی کی خطرناک غلطیوں کو دہرا رہے ہیں۔ اپنے حالیہ انٹرویو میں انہوں نے اپنے پیش رو کے اسی منترا کو دہرایا کہ امریکی فوج کی نئی حکمت عملی،جس میں فضائیہ کی طاقت اور افغان فوجیوں کوٹریننگ دینے والے امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ شامل ہے، نے افغانستان میں صورت حال کو بالکل بدل دیا ہے۔ افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈر اور مارچ 2016سے نیٹو سپورٹ مشن کے سرابراہ نیکلسن کو اب صورتحال کا بہتر ادراک کر لینا چاہیے۔ 
2014ء میں نیکلسن کے پیش رو، جنرل جان کیمبیل نے کہا تھا کہ اس نے بھی تبدیلی دیکھی ہے۔ جبکہ جنرل جوزف ایف ڈنفورڈ نے2013میں "ہماری کامیابی ناگزیر ہے"کا حوالہ دیا تھا۔اسکے پیش رو جنرل جان ایلن نے یہ اعلان کیا تھا کہ "ہم جیت رہے ہیں، ہم جیت رہے ہیں" 2011 ء میں جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے یہ کہا تھا کہ ہم نے طالبان کی پیش قدمی کو روک دیا ہے۔ جنرل سٹینلے میک کرسٹل نے 2010ء میں کہا تھا کہ کامیابی ابھی بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ جبکہ جنرل ڈیوڈ میکرنن نے 2009ء میں مشاہدہ کیا تھا کہ امریکہ افغان جنگ ہار نہیں رہا۔ 2001ء میں جب اتحادی فوجوں نے امریکی سربراہی میں طالبان کی حکومت کا تختہ الٹا تب سے امریکی فوجی جنرلز کی جانب سے ایسے بیانات دیئے جاتے رہے ہیں۔ امریکی فوجی کمانڈرز بہتر طور پر جان سکتے ہیں کہ افغانستان میں کیا ہورہا ہے اگر وہ سول ہسپتالوں مثلاََ ننگر ھار ریجنل ہسپتال، میں جائیں اور دیکھیں کہ وہاں کون کون سی سہولیات دی جا رہی ہیں جیسا کہ میں نے دسمبر 2017ء میں کیا۔ میں نے حالیہ فضائی اور ڈرون حملوں کے متاثرین کا انٹرویو کیا جس میں ایک پندرہ سالہ لڑکا بھی تھا جو اپنی فیملی کے ساتھ ایک کار میں جنازے میں شرکت کے لئے جا رہا تھا کہ اچانک ایک افغان گن شپ ہیلی کاپٹر نے فائر کھول دئیے۔ اس حملے میں اسکی خالہ جاں بحق ہوئی اورباقی تین افراد شدید زخمی ہوئے جبکہ اس لڑکے کے دونوں پاؤں کاٹنے پڑے ۔
"کل جیت ہماری ہوگی " کے نہ ختم ہونے والے دعووں کے بعد توقعات کو کم کرنے کے لئے نیا بیانیہ اپنایا گیا کہ افغانستان سوئٹزرلینڈ نہیں ہے۔ امریکی ملٹری کمانڈرز اوردوسرے آفیشلز نے سالوں ان سے ملتے جلتے ورژن کو اپنائے رکھا۔ نئے امریکی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جان بولٹن نے امریکی افواج کا افغان جنگجوؤں کے ہمراہ کام کرنے کا جواز فراہم کرنے کے لئے انکا تقابلی جائزہ لیا۔ پیٹریاس نے کہا کہ امریکہ افغانستان کو سوئٹزرلینڈبنانے کی کوشش نہیں کررہا۔۔۔بلکہ کچھ ایسا کر رہا ہے جس میں اسی کی بہتری ہے۔ اور سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کے نمائندہ خاص برائے افغانستان سٹافن ڈی مستورانے2009ء کے داغدار انتخابات کے بعد 2010ء کے قابل اعتماد انتخابات کے امکانات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ سوئس الیکشن نہیں ہونگے بلکہ یہ افغانستان کے انتخابات ہونگے۔ 
ان تمام حالات کا اثر یہ ہوا کہ 2009ء سے اب تک28291افغان شہری اس جنگ میں لقمہ اجل بنے جبکہ 52366لوگ زخمی ہوئے۔ اقوام متحدہ کے مطابق زخمیوں کی یہ وہ تعداد ہے جو قابل تصدیق ہے جبکہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ان میں سے 70فیصد اموات اور زخمیوں کے ذمہ دار طالبان اور دوسرے باغی گروپ ہیں جبکہ باقیوں کی ذمہ داری افغان اور اتحادی افواج بالخصوص امریکی فوج پر عائد ہوتی ہے۔ انہی میں اسے ایک حالیہ واقعہ قندوز میں رونما ہوا جہاں افغان ائرفورس نے طالبان کے ایک مذہبی اجتماع پر حملہ کیا اور درجنوں سویلین بشمول بچے مار دیے ۔
اگرچہ یہ تعداد مکمل کہانی بیان نہیں کرتی۔
کابل کے رہائشی جن کا میں نے انٹرویوکیا مسلسل اس خوف میں مبتلا ہیں کہ اگلا خود کش دھماکہ انکے پیاروں کی زندگیوں کے چراغ گل کردے گا۔ بہت سے لوگوں نے تازہ ترین دھماکوں کے بعد اپنے رشتہ داروں کی تلاش میں ہسپتالوں اور مردہ خانوں کے چکر لگانے کے خوف کا اظہار کیا۔ ننگرھار اور ہیرات کے دیہاتی علاقوں کے لوگوں نے مجھے بتایا کہ وہ آسمان سے ٹپک پڑنے والی موت کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں ۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ فضائی حملے سے قبل کیا وہ دیکھ نہیں سکتے کہ وہاں عورتیں اور بچے ہیں؟ بہت سے لوگوں نے اپنے نقصان کے سرکاری اعتراف کے حصول کی بے سود کوششیں کی۔ہلمند میں ہونے والے حالیہ خود کش دھماکے کے بعد ایک نئی تحریک شروع ہوئی ہے جس نے فریقین سے مطالبہ کیا ہے کہ معصوم شہریوں کی ہلاکتیں روکی جائیں۔ 
امریکی آفیشلز کامیابیوں کے متلاشی ہیں جیساکہ ایک آپریشن میں طالبان کمانڈر قاری حکمت کو مارا گیا جس نے شمالی افغانستان میں ISISکی حمایت کا اعلان کیا تھا مگر امریکہ کے بڑھتے ہوئے فضائی حملوں نے اسلامک اسٹیٹ کے حمایتی گروپوں کا قلعہ قمعہ نہیں کیا یا طالبان کومصالحت کے لئے آمادہ نہیں کیا۔ دوسری طرف ان حملوں نے طالبان کے جوابی حملوں کو بڑھوتری دی ہے ۔ امریکی آفیشلز یہ مانتے ہیں کہ جنگجوؤں کے جوابی حملوں کازیادہ ترشہری علاقے نشانہ بنتے ہیں۔امریکی آفیشلز اس بات کے بھی معترف ہیں کہ وہ سویلین کی اموات کی الزامات کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ تاہم امریکی ملٹری انویسٹی گیشن برائے سویلین اموات عینی شاہدین کی گواہیاں کم ہی ریکارڈ کرتی ہے۔ اگر وہ ایسا کریں تو امریکی جنرل جو افغانستان میں امریکی فوج کے انچارج ہیں وہ یہ بہتر جان سکیں گے کہ عام شہری کیوں مر رہے ہیں۔ 
افغانستان میں امریکی کمان کی عام شہریوں کی نظر میں ساکھ اسی صورت میں بہترہوگی اگر وہ بدمزاج پولیس چیفس، ملیشیا اور دوسرے جنگجو گروپوں سے اپنا اتحاد ختم کرے اور ایسے اقدامات اٹھائے جس سے سویلین اموات میں حقیقی کمی آئے۔ مزید یہ کہ جب سویلین اموات کا واقعات رونما ہوں تومتاثرین کے لئے مناسب معاوضہ اور شفاف تحقیقات کو ممکن بنایا جائے۔یہی وہ اصل تبدیلی ہے جسے افغان شہری خوش آمدید کہیں گے۔ 

اخبار=جاپان ٹوڈے
تاریخ اشاعت = 17اپریل 2018
کالم نگار=پیٹریشیا گوسمین, سینئر ریسرچر، انسانی حقوق واچ، برائے افغانستان۔

Friday, April 13, 2018

ڈی ای سی سسٹم اور ٹریفک پولیس لاہور

ڈی ای سی سسٹم اور ٹریفک پولیس لاہور
برطانوی صحافی سڈنی ہارس نے کہاتھا کہ حقیقی خطرہ یہ نہیں کہ کمپیوٹر انسانوں کی طرح سوچنا شروع کر دیں گے بلکہ اصل خطرہ یہ ہے کہ انسان کمپیوٹر کی طرح سوچنا شروع کردیں گے۔ یہ قول سی سی پی او لاہور امین وینس، چیف ٹریفک آفیسر لاہوررائے اعجاز اور پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے چیئرمین عمر سیف پر صادق آتا ہے جو آج کل کمپیوٹر کی طرح سوچ رہے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کرکے لاہور کے شہریوں کو ہر ممکن سہولت پہنجانے کی کوششوں میں جتے ہوئے ہیں۔ انہی کاوشوں میں سے ایک لاہور شہر میں ڈیجیٹل چالان سسٹم آغاز ہے جس کا افتتاح 13اپریل 2018کو بدست سی سی پی او امین وینس اور چیئرمین پنجاب بورڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈالحمرا ہال لاہورمیں ہوا۔ڈیجیٹل چالان سسٹم دراصل ایک ایسے منصوبے کا پہلامرحلہ ہے جسکے اختتام پرلاہور شہر میں صرف اور صرف کیمروں کی مدد سے چالان کیے جائیں گے۔ پہلا مرحلہ ڈیجیٹل چالان سسٹم کہلاتا ہے جسکا باقاعدہ آغاز ہوچکاہے۔ دوسرا مرحلہ ای چلاننگ کہلاتا ہے جسکے تحت لاہور شہر میں کمپیوٹرائزڈ مشینوں کے ذریعے موقع پر ہی چالان ایشو کیے جائیں گے ۔تیسرا اور آخری مرحلہ سی چلاننگ کہلاتا ہے جسکے تحت لاہور شہر میں نصب پی پی آئی سی تھری کے کیمروں سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو چالان جاری کیے جائیں گے۔ ان افسران کا خواب یہ ہے کہ لاہور ٹریفک پولیس کو اتنا جدید کر دیا جائے کہ ٹریفک وارڈنز کی آئے روز کے جھگڑوں اور بحث وتکرار سے جان چھوٹ جائے ۔کیمرے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کی تصاویر لیں، کمپیوٹرز آٹومیٹک چالان رسید جاری کریں اور یہ چالان رسیدیں وائیلیٹرز کو انکے گھر کے ایڈریس پر بذریعہ ڈاک ارسال کر دی جائیں تاکہ وہ متعلقہ بینکوں میں چالان کی رقم کو ادا کرسکیں۔ 
ڈیجیٹل چالان سسٹم کا آغاز کرتے ہوئے چیف ٹریفک آفیسر لاہو ر نے اس سسٹم کی افادیت کے بارے میں بتایا کہ اس نظام کے تحت ٹریفک پولیس لاہور کوایک مکمل ڈیٹا بیس بنانے میں مدد ملے گی۔ اس سے قبل لاہور ٹریفک پولیس کے پاس ایسا کوئی سسٹم موجود نہیں تھا جسکے تحت کسی شخص کی وائیلیشن ہسٹری چیک کی جاسکے۔اندرون و بیرون ملک سے جب کوئی خط آتا کہ فلاں بندے کے بارے میں بتایا جائے کہ اس نے کتنی بار ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی اور اسے کتنا جرمانہ اور کون کو ن سی سزائیں دی گئیں تو ایسی صورت میں ٹریفک پولیس لاہور کے پاس ایسا کوئی سسٹم نہ تھا کہ ایسے خطوط کا مناسب جواب دیا جاتا۔ تاہم ڈیجیٹل چالان سسٹم کی صورت میں لاہور ٹریفک پولیس کو ایک ایسا سسٹم مل گیا ہے کہ جس سے ایک سنگل کلک کی مدد سے اب یہ جاننا ممکن ہوگیا ہے کہ کسی شہری کی وائیلیشن ہسٹری کیا ہے۔ دوم، اس سسٹم کے ساتھ ایک پینالٹی سسٹم بھی جوڑا جائے گا جوکہ اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ پینالٹی سسٹم کے تحت ہر وائیلیشن پر پوائنٹس کاٹے جائیں گے۔ ایک خاص حد تک پوائنٹس کٹ جانے پر متعلقہ شہری کا ڈرائیونگ لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا۔ سوم، اس سسٹم کے تحت ٹریفک وارڈنز کی پرفارمنس کو بھی جانچا جائے گا کہ کس نے دئے گئے احکامات پر عمل درآمد کیا ہے۔ مثلاََ جب کوئی مہم چلے گی کہ ون وے کی خلاف ورزی کے خلاف بھر پورایکشن لیا جائے تو ایک سنگل کلک سے معلوم ہوجائے گا کہ ایک دن میں کتنے ٹریفک وارڈنز نے کہاں کہاں کیا کاروائی عمل میں لائی۔ چہارم، ڈیجیٹل چالان سسٹم بتائے گا کہ فلاں شخص کا لائسنس معطل ہے لہذا اسکا ڈپلیکیٹ لائسنس نہیں بن سکتا۔ پنجم ، یہ سسٹم یہ بھی بتائے گا کہ ایک دن میں لاہور شہر میں کتنے چالان ہوئے، کون سے اور کتنے چالان پینڈنگ تھے جو عدالت بھیجے گئے اور ان پر عدالت عالیہ نے کیا فیصلہ صادر کیا۔ چیف ٹریفک آفیسر لاہور نے مزید بتایا کہ اس وقت سولہ لاکھ سے زائد چالان عدالتوں میں پینڈنگ پڑے ہیں ۔اکثرشہری اپنے چالان شدہ شناختی کارڈ یا ڈرائیونگ لائسنس واپس لینے کی بجائے جدید ٹیکنالوجی کی عدم دستیابی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جھوٹا بیان حلفی یا ایف آئی آرکی بنا پر نیا شناختی کارڈ یا ڈرائیونگ لائسنس بنوا لیتے تھے مگر اب ایسا ممکن نہیں ہوگا۔ کیونکہ ڈیجیٹل چالان سسٹم ایسے لوگوں کی فوراََ نشاندہی کر دے گا۔ آخر میں سی ٹی اور لاہور نے بتایا کہ فی الحال یہ ایک پائلٹ پراجیکٹ ہے جوکہ سب سے پہلے لاہور میں شروع کیا جارہا ہے۔ اگر یہ پراجیکٹ کامیاب رہا تو پنجاب کے باقی شہروں میں بھی لانچ کیا جائے گا۔ 

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سی ٹی لاہو ر رائے اعجاز احمد نے مزید بتایا کہ پنجاب انفارمیشن بورڈکی مدد سے تین ماہ قبل ایک ایپ راستہ متعارف کروائی گئی جسکے اب تک الحمداللہ ایک لاکھ سے زائد یوزر ہوچکے ہیں ۔انہوں نے میڈیا کے نمائندوں سے درخواست کی کہ اس ایپ کے حوالے سے لوگوں میں آگاہی پیدا کریں کہ ہر وہ شخص جو لاہور میں سڑک پر آتا ہے وہ یہ ایپ اپنے موبائل بھی ضرور انسٹال کرے کیونکہ اس ایپ کی مدد سے آپ ہر لمحہ شہر بھرمیں ٹریفک کی صورت حال سے باخبر رہیں گے۔ 

تقریب سے خطاب کے دوران سی سی پی اولاہور امین وینس نے بتایا کہ میرا لاہور شہر سے پرانا رشتہ ہے کیونکہ میں یہاں بطور ایس ایس پی ٹریفک اور ڈی آئی جی ٹریفک بھی اپنے فرائض سرانجام دے چکا ہوں لہذا مجھے لاہور کی ٹریفک پولیس سے ایک خاص لگاؤ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جدید ٹیکنالوجی ہر دور میں خاص اہمیت کی حامل رہی ہے کیونکہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے انتظامیہ کی کارکردگی کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔ شفافیت کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ڈی ای سی سسٹم کا سفر ناگزیر ہے اور اس میں پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کا کلیدی کردار ہے۔ چیئرمین عمر سیف کا شکریہ اداکرتے ہوئے سی سی پی او لاہور نے کہا کہ آج کے اس اقدام سے ٹریفک وارڈنز کی کارکردگی میں بہتری آئے گی۔ ٹریفک وارڈنز کو ہدایات دیتے ہوئے سی سی پی او لاہور نے کہا کہ چالان صرف ڈیٹرینس کے لئے ہوتا ہے۔ ہر ممکن کوشش کریں کہ چالان نہ کرنا پڑے کیونکہ چالان کرنا آخری حربہ ہے۔ لوگوں میں ٹریفک قوانین کے متعلق زیادہ سے زیادہ آگاہی پیدا کریں۔ لوگوں کو اس سرزمین کے قانون کا احترام کرنا سیکھائیں۔ 
تقریب کے دوران مہمان خصوصی چیئرمین عمر سیف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب ٹیکنالوجی میں اتنا ترقی کر گیا کہ اکثر لوگوں کو جب تفصیل بتائی جاتی ہے تو وہ یقین ہی نہیں کرتے کہ پنجاب نے ٹیکنالوجی میں اتنی ترقی کرلی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی مجھ سے سوال کرے کہ مجھے پنجاب میں سب سے زیادہ کس محکمے کے ساتھ کام کرکے خوشی محسوس ہوئی تو میرا جواب ہوگا کہ پنجاب پولیس۔ چیئرمین نے کہا کہ پنجاب پولیس کے ساتھ انکا سفر آج سے ساڑھے تین سال قبل شروع ہوا جب سی سی پی او لاہور کے ساتھ انکی ایک میٹنگ ہوئی جس میں انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ لاہور کے شہریوں کے لئے ایک آن لائن کمپلینٹ سسٹم بنایا جائے۔ یہ سفر دو کمپیوٹرز اور دو لیپ ٹاپ سے شروع ہوا تھا اور آج الحمدللہ پندرہ سو سے زائد لوگ پنجاب انفارمیشن بورڈمیں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اخبارات اور ٹی وی میں پولیس کا غلط امیج پیش کیا جاتا ہے لیکن میری نظر میں پولیس کا امیج مختلف ہے۔ پولیس کو جدید خطوط پر آراستہ مینجمنٹ کی اشد ضرورت ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سی چالاننگ یعنی کیمرے کی مدد سے چالان کے منصوبے کے لئے ڈیجیٹل چالاننگ ایک بنیادی بلاک کی حثیت رکھتا ہے۔ اس سسٹم کی مدد سے ٹریفک پولیس کی اکاؤنٹی بیلٹی چیک کرنے اور مانیٹرنگ کے ساتھ ساتھ شہریوں کی وائلیشن ہسٹری کو بھی ٹریک کیا جاسکتا ہے۔ لاہور پولیس کے افسران کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ افسران پولیس کے محکمے کو جدت سے ہمکنار کرنے کے لئے کئی طرح کے رسک لیتے ہیں اور نئے نئے آئیڈیاز متعارف کرواتے رہتے ہیں۔ ڈیجیٹل چالان سسٹم بھی انہی آئیڈیاز میں سے ایک ہے۔ 
ہگ گرانٹ نے کہا تھا کہ ہر نئی آنے والی ٹیکنالوجی کے ساتھ ایک خوف نتھی ہوتا ہے۔ناکامی کا خوف۔ تاہم مجھے لگتا ہے کہ یہ پہل کرنے کی قیمت ہے۔نئے آئیڈیاز متعارف کرواتے ہوئے لاہور پولیس کے افسران کے اذہان میں بھی ناکامی کا خوف پنہاں ہوگا مگر انکے حوصلوں کی داد دینی پڑے گی کہ شہریوں کو ہر ممکن سہولت بہم پہنچانے کے لئے یہ افسران کسی بھی قسم کا رسک لینے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ 

Tuesday, April 10, 2018

بلوچستان کی عوام کے بنیادی حقوق کا استحصال اور سپریم کورٹ


بلوچستان کی عوام کے بنیادی حقوق کا استحصال اور سپریم کورٹ

رقبے کے لحاظ سے بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اسی تناسب سے اس زمین میں معدنیات اور وسائل بھی بے پناہ پنہاں ہیں مگر بلوچستان کے عوام کی حالت انتہائی دگرگوں ہے۔ عوام انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہی ہے اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان میں آج تک جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں انہوں نے عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے کی بجائے استحصال کیا۔ ماضی میں بلوچستان کی حکومتوں نے صوبے کے وسائل کو بروئے کار لانے کی بجائے ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر عمل کیا اور ہمیشہ وفاق کی طرف دیکھتی رہیں اور آج تک اس پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے چند روز قبل سپریم کورٹ کی کوئٹہ رجسٹری میں وزیراعلی بلوچستان ، وزیرصحت اور وزیرتعلیم کو طلب کیا اور صوبے میں صحت ، تعلیم اور پانی کی صورتحال پر رپورٹ طلب کی۔ وزیراعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے بتایا کہ انکی حکومت دو ماہ قبل بنی ہے ۔ مزید یہ کہ انکے پاس وقت کے ساتھ ساتھ وسائل بھی نہ ہیں ۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ سابق وزرائے اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک اور ثناء اللہ زہری حاضر ہوکر وضاحت کریں کہ پچھلے چار سالوں میں انکی حقومتوں نے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کیا اقدامات اٹھائے ۔صحت سے متعلق کیسز کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں میڈیکل کالجز معیاری نہیں ۔چیف جسٹس نے بجا فرمایا ہے کیونکہ پاکستان میں سرمایہ ہ داروں نے تعلیم اور صحت کو بھی بزنس کا روپ دے دیا ہے۔ میڈیکل کے طلبہ وطالبات سے بیس سے پچیس لاکھ فیس وصول کی جاتی ہے جو کہ سراسرزیادتی ہے اوربنیادی حقوق کے استحصال کے زمر ے میں آتا ہے۔آئین کا آرٹیکل 199ْؑ اور 184عدلیہ کواختیار دیتا ہے کہ جب عوام کے بنیادی حقوق کا استحصال ہو تو مداخلت کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چیف جسٹس نے حکم دیا ہے کہ میڈیکل کے سٹوڈنٹس سے آٹھ لاکھ پچاس ہزار سے زیادہ فیس وصول نہیں کی جائے گی۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہماری کوشش ہوگی کہ دو کروڑ سٹوڈنٹس سے ساڑھے آٹھ لاکھ سے زائد وصول کی گئی رقم کو ری فنڈ کروایا جائے۔ چیف سیکریٹری بلوچستان نے صوبے میں صحت کی حالت زار کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ مریضوں کو دیکھنے والا کوئی نہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد اب صحت کا شعبہ صوبوں کے پاس آگیا ہے اس لئے وفاق کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے وسائل بروئے کار لائیں۔ آئین کے آرٹیکل 25کے تحت تعلیم ہر بچے کا آئینی حق ہے تاہم بلوچستان میں تعلیم کی حالت یہ ہے کہ تقریباََ دس لاکھ سے زائد بچے سکول نہیں جاتے ۔تعلیم کی ایسی ابتر حالت پر چیف جسٹس نے حکم دیا کہ سابقہ دونوں وزرائے اعلی پیش ہوکر وضاحت کریں کہاانہوں نے تعلیم کے فروغ کے لئے کیا اقدامات اٹھائے تھے؟۔ بعد ازاں چیف جسٹس نے وزیراعلی بلوچستان ، ججز اور صوبائی وزراء کے ہمراہ سول ہسپتال کوئٹہ کا دورہ کیا جہاں ینگ ڈاکٹرزنے ایک ماہ سے ہڑتالی کیمپ لگایا ہوا تھا۔ چیف جسٹس نے انکے مطالبات سنے اورینگ ڈاکٹرز کا ہڑتالی کیمپ یہ کہہ کر ختم کروایا کہ انکے جائز مطالبات کی سمری تیار کرکے منظوری کروائیں اور نوٹیفیکیشن جاری کرکے رپورٹ چار یوم کے اندر سپریم کورٹ میں جمع کروائیں۔ ینگ ڈاکٹرز سے مزاکرات کا کام حکومت کا تھا مگر چیف جسٹس کو کرنا پڑا ۔ جب حکومتیں اپنا کام احسن طریقے سے سرانجام نہیں دیں گی اور عوام کے بنیادی حقوق متاثر ہونگے تو سپریم کورٹ کو مداخلت کرنا پڑتی ہے ۔ انہی خیالات کا اظہار چیف جسٹس نے کوئٹہ ہائی کورٹ بار کے عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بلوچستان سے بنیادی حقوق سے متعلق ایک بھی پٹیشن نہیں آئی ۔ کوئی بھی پٹیشن نہ آنے کا مطلب یہ نہیں کہ سب اچھا ہے بلکہ اسکا مطلب یہ ہے کہ عوام کو اپنے بنیادی حقوق سے آگاہی نہیں۔لہذا ایسی صورت میں سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینا پڑتا ہے۔ کیونکہ عدلیہ کی یہ آئینی ذمہ داری ہے کہ عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ 

سرکاری اشتہارات اور لیڈروں کی تصاویر



سپریم کورٹ نے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کو اشتہارات کی تقسیم اور ان پر سیاسی لیڈروں کی تصاویر سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے یہ واضح کر دیا ہے کہ اب کسی بھی سرکاری اشتہار پر کسی سیاسی لیڈر کی تصویر نہیں لگے گی کیونکہ یہ اشتہارات جاری کرنے کے لئے قومی خزانے سے رقوم خرچ کی جاتی ہیں تاہم قومی خزانہ جو دراصل عوام کا پیسہ ہے کو ذاتی تشہیر کے لئے استعمال نہیں کیا جاسکتا ۔ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران جب پوچھا گیا کہ حکومت نے پچھے تین ماہ میں کل کتنے اشتہارات جاری کیے ہیں اور ان میں کتنے اشتہارات پر سیاسی لیڈروں کی تصاویر ہیں تو ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یکم دسمبر سے تین ماہ کے دوران کل89کروڑ کے اشتہارات پرنٹ میڈیا کو جاری کیے گئے جن میں نو عدد اشتہارات پر تصاویر جبکہ 191اشتہارات تصویر کے بغیر جاری کیے گئے۔ حکومتی ترجمان سے مزید ایک سال کے اشتہارات کی تفصیل مانگ لی گئی ہے۔ معزز ججز صاحبان نے یہ بھی کہا کہ الیکشن کے سال میں تصویر والے اشتہارات جاری کرنا انتخابات سے قبل دھاندلی کے زمرے میں آتا ہے اور ہم ایسے نہیں ہونے دیں گے کیونکہ جناب چیف جسٹس نے عوام سے وعدہ کیا ہے کہ 2018ء کے الیکشنز 1973ء کے بعد تاریخ کے شفاف ترین انتخابات ہونگے۔ لہذا ہم کسی کو بھی اجازت نہیں دیں گے کہ سرکاری خرچے پر کسی سیاسی لیڈر کی تشہیر کی جائے کیونکہ ہم سب کو ایک جیسا گراؤنڈ دینا چاہتے ہیں تاکہ بعد میں کوئی اعتراز نہ کرے ۔چیف جسٹس نے مزید بتایا کہ جینوئن اشتہارات پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ پابندی صرف سیاسی لیڈروں والے سرکاری اشتہارات پر ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ سب سے احسن اقدام ہے کیونکہ ماضی میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ گراؤنڈ پر کام کرنے کی بجائے حکومتیں اشتہارات میں زندہ تھیں۔ایسے ایسے اشتہارات بھی جاری کیے گئے کہ منصوبے مکمل ہونے تک کے دعوے کر دیے گئے مگر زمینی حقائق یہ تھے کہ منصوبے کی پہلی اینٹ بھی نہیں لگائی گئی تھی۔ مطلب یہ کہ عوام کے پیسوں سے جھوٹے دعوے کر کے عوام کی ہی آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی تھی جبکہ لیڈر اپنے تئیں نیلسن مینڈیلا، قائد اعظم ثانی اور معلوم نہیں کیا کیا بنے بیٹھے تھے۔ سپریم کورٹ نے جب دیکھاوے کی چادر اوپر سے ہٹائی ہے تو ان لیڈروں کا دوغلہ پن کھل کے سامنے آگیا ہے۔ سرکاری اشتہاروں میں لیڈروں کی تصاویر لگانا صرف پاکستان کا ہی خاصہ ہے کیونکہ دنیا بھر میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ قومی خزانے کو لیڈروں کی تشہیر کے لئے استعمال کیا جاتا ہو۔ کچھ عرصہ قبل یہاں آوے کا آوہی بگڑا ہوا تھا۔ خدا بھلا کر ے موجودہ چیف جسٹس کا جنہوں نے آتے ہی میرٹ پر کام کو ترجیح دی ہے۔ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار صاحب اتنہائی سادہ لوح انسان ہیں ۔ میرٹ اورنظم و ضبط کے اس قدر پابند ہیں کہ چیف جسٹس آف پاکستان بننے کے بعد ایک روز صبح سویرے اپنی اہلیہ کے ہمراہ سادہ کپڑوں میں ملبوس ہوکر گھر کے پاس ہی ایک بیکری شاپ پر گئے۔ سودہ سلف لینے کے بعد بل کی ادائیگی کے لئے لائن میں کھڑے ہوگئے۔ کاؤنٹر پر کھڑے لڑکے نے پہچان کر درخواست کی کہ سرآپ آگے آجائیں۔ اس بات پر چیف جسٹس صاحب کا چہرہ غصے سے لال ہوگیا اور کرخت لہجے میں بولے میرے آگے جو لوگ کھڑے ہیں کیا انکی کوئی عزت نفس نہیں ہے؟ کیا یہ لوگ ادھار سودہ لینے آئیں ہیں؟ پہلے انکا بل کلئیر کرو ۔ میں اپنی باری پہ آؤں گا۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جو بندہ اپنی روز مرہ زندگی میں دوسروں کے انفرادی حقوق کا اتنا خیال رکھتا ہو وہ عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں میں شفافیت اور میرٹ کو یقینی بنانے کے لئے ہر ممکن اقدام کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ ہر وہ کام کر رہی ہے جس سے عوام کا بھلا ہو۔ چیف جسٹس صاحب کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ ہمیں مداخلت پسند نہیں لیکن جب حکومتی ادارے اپنے فرائض پورے نہیں کریں گے تو ہم مجبوراََ مداخلت کریں گے۔ سرکاری اشتہارات کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ زمینی حقائق کچھ ہیں جبکہ حکومتیں اپنے لیڈروں کی تصاویر کے ساتھ بڑے بڑے اشتہارات فخریہ انداز میں پیش کر کے عوام کو گمراہ کررہی تھیں۔ ایسا ہی ایک اشتہار سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا جس میں درج تھا کہ توانائی کا خاتمہ مبارک ہو۔ جناب چیف جسٹس صاحب نے استفسار کیاکہ کیا لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوگیا ہے؟ تو ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کچھ فرق تو پڑا ہے۔ فرق پڑنے اور خاتمے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ایسے اشتہارات دے کر وفاقی و صوبائی حکومتیں عوام سے کھلواڑ کر رہی ہیں ۔تاہم سپریم کورٹ نے یہ واضح کردیا ہے کہ اب یہ ڈرامے بازی نہیں چلے گی۔