منصف جب مجرم ٹھہرا
عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اب تک صرف دو ججوں کو اپنے عہدوں سے ہٹایا گیا ہے لیکن دونوں ججز کا نام شوکت ہے۔ سب سے پہلے 1973ء میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت علی کو بدعنوانی کا مرتکب پائے جانے پر عہدے سے ہٹایا گیا جبکہ 11اکتوبر 2018ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ملکی اداروں کے خلاف متنازعہ تقریر کے جرم میں مرتکب پائے جانے پر عہدے سے ہٹایا گیا۔ لہذا شوکت عزیز صدیقی پاکستان کی تاریخ کے وہ واحد جج ہیں جنہیں صرف ایک تقریر کرنے کے جرم میں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ یہ وہ الزام ہے جسکا ڈھنڈورا لبرل طبقہ پاکستانی افواج اور عدلیہ کو بدنام کرنے کے لئے پیٹ رہا ہے۔ دوسری طرف محب وطن طبقہ اسے عین انصاف قرار دے رہا ہے۔کون سچا ہے اور کون جھوٹا ، آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
21جولائی 2018ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے راولپنڈی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کے دوران افواج پاکستان بالخوص آئی ایس آئی پر مداخلت کا الزام لگایا ۔انکی اس تقریر پر سپریم جوڈیشل کونسل نے 31جولائی 2018ء کو انہیں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیااور ججوں کے لئے بنائے گئے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر ان سے جواب طلبی کی۔ یہ کیس سپریم جوڈیشل کونسل کے پانچ ججوں نے چیف جسٹس کی سربراہی میں سنا اور اپنی سفارشات پیش کرتے ہوئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو خلاف ورزی کا مرتکب پایا اورآئین کے آرٹیکل 209 (6)کے تحت عہدے سے ہٹائے جانے کی سفارش کی۔ جسے صدرِ پاکستان نے منظور کیا اور وزارت قانون نے اسکا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ جسٹس صدیقی کے خلاف یہ واحد ریفرنس نہیں تھا بلکہ اس سے قبل دو اور ریفرنس انکے خلاف زیر سماعت ہیں۔ پہلا یہ کہ موصوف نے اپنے گھر کی تزعین و آرائش پر اپنے استحقاق سے بڑھ رقم خرچ کی اور دوسرا یہ کہ فیض آباد دھرناکیس میں فوج کے ثالثی کے کردار پر موصوف نے غلط ریمارکس دئیے تھے۔
کہتے ہیں جج خود نہیں بولتا بلکہ اسکے فیصلے بولتے ہیں لیکن شوکت صدیقی کے تناظر میں یہ الٹ نظر آتا ہے کیونکہ موصوف نہ صرف خود بولے ہیں بلکہ ملکی اداروں کے خلاف بولے ہیں۔ دنیا میں کہاں ایسا ہوتا ہے کہ کوئی حاضر سروس جج اپنی فوج کے خلاف ریمارکس دے اور دشمن کو جگ ہنسائی کا موقع فراہم کرے؟بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں کر رہا ہے لیکن کبھی کسی نے سنا ہے کہ کسی بھارتی جج نے بھارتی فوج کی ظلم و بربریت کے خلاف بیانات دئیے ؟جی نہیں، ججوں کو طے کئے گئے ضابطہ اخلاق کی پابندی کرنا ہوتی ہے جو موصوف نہیں کر پائے۔ رہی بات تقریر کی تو اگر موصوف کو جذباتی تقریر کا اتنا ہی شوق تھا تو جج کے عہدے سے ازخود استعفی دے دیتے اور سیاست میں حصہ لے کر ملکی اداروں کے خلاف خوب بھڑاس نکالتے مگر موصوف نے آسان اور سستے راستے کا انتخاب کرکے ملکی اداروں کو ٹارگٹ کیا۔
یہ بجا ہے کہ ملکی تاریخ میں جمہوریت کی نسبت مارشل لاء کا نفاذ زیادہ عرصہ رہا مگر عدلیہ بچاؤ بحالی تحریک کے بعد اب عدلیہ نے اپنا وہ رعب و دبدبہ حاصل کرلیا ہے جسکا وہ استحقاق رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ پانامہ کیس میں ایک وزیراعظم کو چلتا کیا تو کسی نے چوں تک نہ کیا۔ جبکہ مسنگ پرسنز کے معاملے میں چیف جسٹس نے چیف آف آرمی سٹاف اور چاروں صوبوں کے آئی جیز کو بلا کر حکم دیا کہ بتایا جائے کہ مسنگ پرسنز کہاں ہیں اور اگر آپ کے پاس نہیں ہیں تو بیان حلفی لکھ کر دیں ۔کیا ملکی تاریخ میں پہلے ایسا کبھی ہوا ہے؟ہرگز نہیں۔تو شوکت صدیقی نے اپنی تقریر کے دوران جو ملکی اداروں پر مداخلت کا الزام لگایا تھا وہ سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ ایک طرف عدلیہ کا سربراہ کہتا ہے کہ کوئی مجھے ڈکٹیشن نہیں دے سکتا دوسری طرف اسی ادارے کا ایک ذیلی جج کہتا ہے کہ مجھے ڈکٹیشن دینے کی کوشش کی جاتی ہے تو جناب جس نے مداخلت کی کوشش کی ہے اسکا نام اپنے سربراہ کوبتاؤکہ وہ اسے کٹہرے میں لا کھڑا کرے اور دنیا کو دکھائے کہ کوئی اسے ڈکٹیشن نہیں دے سکتا ۔ مزید یہ کہ ملک کی اعلی عدلیہ تو اس وقت اتنی طاقتور ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلی اور آئی جی کو ایک کیس میں معافی نامہ لکھ کر دینا پڑا تب جا کر ان کی جان بخشی ہوئی مگر موصوف کہتے ہیں ہمارے کام میں ملکی ادارے مداخلت کرتے ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں کہ ملک کی اعلی عدالتیں بڑوں بڑوں کو ناکوں چنے چبوا رہی ہیں مگر ہائی کورٹ کا ہی ایک جج اٹھ کے کہتا ہے کہ ہم بااختیار نہیں ہمیں ڈکٹیشن دی جاتی ہے۔
شوکت عزیز صدیقی اگر ججوں کے لئے بنائے گئے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے پہلی بار مرتکب ہوتے تو لوگ یہ کہنے میں حق بجانب تھے کہ انکے ساتھ زیادتی ہوئی ہے مگر موصوف تو اس سے قبل بھی فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت کے دوران فوج کی ثالثی والے کردار میں کچھ ایسے ریمارکس ملکی اداروں کے خلاف دے چکے ہیں کہ انکے خلاف علیحدہ سے ایک ریفرنس دائر ہے ۔ علاوہ ازیں اپنے استحقاق سے زائد رقم گھر کی تزئین و آرائش پر خرچ کرنے پر بھی ایک ریفرنس موصوف کے خلاف دائرہے ۔ ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے آئین کے آرٹیکل 209(6) کے تحت جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹانے کا جو متفقہ فیصلہ کیا ہے وہ بالکل درست ہے۔ اب موصو ف عمر بھر دوبارہ جج کی کرسی پر نہیں بیٹھ سکتے کیوں کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کی جاسکتی۔