Friday, October 12, 2018

منصف جب مجرم ٹھہرا

منصف جب مجرم ٹھہرا

عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اب تک صرف دو ججوں کو اپنے عہدوں سے ہٹایا گیا ہے لیکن دونوں ججز کا نام شوکت ہے۔ سب سے پہلے 1973ء میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت علی کو بدعنوانی کا مرتکب پائے جانے پر عہدے سے ہٹایا گیا جبکہ 11اکتوبر 2018ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ملکی اداروں کے خلاف متنازعہ تقریر کے جرم میں مرتکب پائے جانے پر عہدے سے ہٹایا گیا۔ لہذا شوکت عزیز صدیقی پاکستان کی تاریخ کے وہ واحد جج ہیں جنہیں صرف ایک تقریر کرنے کے جرم میں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ یہ وہ الزام ہے جسکا ڈھنڈورا لبرل طبقہ پاکستانی افواج اور عدلیہ کو بدنام کرنے کے لئے پیٹ رہا ہے۔ دوسری طرف محب وطن طبقہ اسے عین انصاف قرار دے رہا ہے۔کون سچا ہے اور کون جھوٹا ، آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
21جولائی 2018ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے راولپنڈی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کے دوران افواج پاکستان بالخوص آئی ایس آئی پر مداخلت کا الزام لگایا ۔انکی اس تقریر پر سپریم جوڈیشل کونسل نے 31جولائی 2018ء کو انہیں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیااور ججوں کے لئے بنائے گئے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر ان سے جواب طلبی کی۔ یہ کیس سپریم جوڈیشل کونسل کے پانچ ججوں نے چیف جسٹس کی سربراہی میں سنا اور اپنی سفارشات پیش کرتے ہوئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو خلاف ورزی کا مرتکب پایا اورآئین کے آرٹیکل 209 (6)کے تحت عہدے سے ہٹائے جانے کی سفارش کی۔ جسے صدرِ پاکستان نے منظور کیا اور وزارت قانون نے اسکا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ جسٹس صدیقی کے خلاف یہ واحد ریفرنس نہیں تھا بلکہ اس سے قبل دو اور ریفرنس انکے خلاف زیر سماعت ہیں۔ پہلا یہ کہ موصوف نے اپنے گھر کی تزعین و آرائش پر اپنے استحقاق سے بڑھ رقم خرچ کی اور دوسرا یہ کہ فیض آباد دھرناکیس میں فوج کے ثالثی کے کردار پر موصوف نے غلط ریمارکس دئیے تھے۔ 
کہتے ہیں جج خود نہیں بولتا بلکہ اسکے فیصلے بولتے ہیں لیکن شوکت صدیقی کے تناظر میں یہ الٹ نظر آتا ہے کیونکہ موصوف نہ صرف خود بولے ہیں بلکہ ملکی اداروں کے خلاف بولے ہیں۔ دنیا میں کہاں ایسا ہوتا ہے کہ کوئی حاضر سروس جج اپنی فوج کے خلاف ریمارکس دے اور دشمن کو جگ ہنسائی کا موقع فراہم کرے؟بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں کر رہا ہے لیکن کبھی کسی نے سنا ہے کہ کسی بھارتی جج نے بھارتی فوج کی ظلم و بربریت کے خلاف بیانات دئیے ؟جی نہیں، ججوں کو طے کئے گئے ضابطہ اخلاق کی پابندی کرنا ہوتی ہے جو موصوف نہیں کر پائے۔ رہی بات تقریر کی تو اگر موصوف کو جذباتی تقریر کا اتنا ہی شوق تھا تو جج کے عہدے سے ازخود استعفی دے دیتے اور سیاست میں حصہ لے کر ملکی اداروں کے خلاف خوب بھڑاس نکالتے مگر موصوف نے آسان اور سستے راستے کا انتخاب کرکے ملکی اداروں کو ٹارگٹ کیا۔ 

یہ بجا ہے کہ ملکی تاریخ میں جمہوریت کی نسبت مارشل لاء کا نفاذ زیادہ عرصہ رہا مگر عدلیہ بچاؤ بحالی تحریک کے بعد اب عدلیہ نے اپنا وہ رعب و دبدبہ حاصل کرلیا ہے جسکا وہ استحقاق رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ پانامہ کیس میں ایک وزیراعظم کو چلتا کیا تو کسی نے چوں تک نہ کیا۔ جبکہ مسنگ پرسنز کے معاملے میں چیف جسٹس نے چیف آف آرمی سٹاف اور چاروں صوبوں کے آئی جیز کو بلا کر حکم دیا کہ بتایا جائے کہ مسنگ پرسنز کہاں ہیں اور اگر آپ کے پاس نہیں ہیں تو بیان حلفی لکھ کر دیں ۔کیا ملکی تاریخ میں پہلے ایسا کبھی ہوا ہے؟ہرگز نہیں۔تو شوکت صدیقی نے اپنی تقریر کے دوران جو ملکی اداروں پر مداخلت کا الزام لگایا تھا وہ سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ ایک طرف عدلیہ کا سربراہ کہتا ہے کہ کوئی مجھے ڈکٹیشن نہیں دے سکتا دوسری طرف اسی ادارے کا ایک ذیلی جج کہتا ہے کہ مجھے ڈکٹیشن دینے کی کوشش کی جاتی ہے تو جناب جس نے مداخلت کی کوشش کی ہے اسکا نام اپنے سربراہ کوبتاؤکہ وہ اسے کٹہرے میں لا کھڑا کرے اور دنیا کو دکھائے کہ کوئی اسے ڈکٹیشن نہیں دے سکتا ۔ مزید یہ کہ ملک کی اعلی عدلیہ تو اس وقت اتنی طاقتور ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلی اور آئی جی کو ایک کیس میں معافی نامہ لکھ کر دینا پڑا تب جا کر ان کی جان بخشی ہوئی مگر موصوف کہتے ہیں ہمارے کام میں ملکی ادارے مداخلت کرتے ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں کہ ملک کی اعلی عدالتیں بڑوں بڑوں کو ناکوں چنے چبوا رہی ہیں مگر ہائی کورٹ کا ہی ایک جج اٹھ کے کہتا ہے کہ ہم بااختیار نہیں ہمیں ڈکٹیشن دی جاتی ہے۔ 
شوکت عزیز صدیقی اگر ججوں کے لئے بنائے گئے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے پہلی بار مرتکب ہوتے تو لوگ یہ کہنے میں حق بجانب تھے کہ انکے ساتھ زیادتی ہوئی ہے مگر موصوف تو اس سے قبل بھی فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت کے دوران فوج کی ثالثی والے کردار میں کچھ ایسے ریمارکس ملکی اداروں کے خلاف دے چکے ہیں کہ انکے خلاف علیحدہ سے ایک ریفرنس دائر ہے ۔ علاوہ ازیں اپنے استحقاق سے زائد رقم گھر کی تزئین و آرائش پر خرچ کرنے پر بھی ایک ریفرنس موصوف کے خلاف دائرہے ۔ ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے آئین کے آرٹیکل 209(6) کے تحت جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹانے کا جو متفقہ فیصلہ کیا ہے وہ بالکل درست ہے۔ اب موصو ف عمر بھر دوبارہ جج کی کرسی پر نہیں بیٹھ سکتے کیوں کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کی جاسکتی۔ 

Monday, October 8, 2018

قانون کی پٹائی



قانون کی پٹائی

چند روز سے سوشل میڈیا پر ایک وڈیو وائرل ہورہی ہے جس میں کم و بیش پندرہ وکلاء نے کمرہ ء عدالت میں پنجاب پولیس کے ایک اے ایس آئی کی درگت بنائی اور اسے پیٹتے ہوئے باہر لے گئے۔ ہمارے ملک میں قانون کی کتنی عزت ہے یہ وڈیو اسکا منہ بولتا ثبوت ہے۔ چلئے اس وڈیو کو مختلف زاویوں سے دیکھنے اور جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
ایک پولیس والے کی پٹائی ہونے پر زمین پھٹی اور نہ آسمان کیونکہ پولیس والے انسان نہیں ہوتے بلکہ انہیں حیوان متصور کیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں احتجاج کا حق ہے اور نہ کوئی تنظیم بنانے کا۔ آپ ایک پولیس والے کے ساتھ چاہے جتنی بھی زیادتی کر لو چراغ تلے اندھیرا کے مصداق اسکے حق میں کوئی آواز نہیں اٹھے گی۔صرف ایک عدد ایف آئی کا اندراج ہوگا اور باقی کیس عدالتوں کی راہداریوں میں گم ہوجائے گا۔ 
اسکے برعکس اگر کسی پولیس والے کے ہاتھو ں وکیل کی پٹائی ہوئی ہوتی تو ہر شہر کی شاہراہیں کالے کوٹوں سے بھری ہوئی جبکہ عدالتیں خالی نظر آتیں۔ہڑتالیں، احتجاج اورجلاؤ گھیراؤ جیسے ہربے استعمال کیے جاتے یہاں تک کے پولیس افسران کو مجبوراََ متعلقہ پولیس ملازم کو معطل کرنا پڑتا، انکوائری سٹینڈ کرنی پڑتی اور اسکے خلاف ایف آئی آر کا اندراج بھی کیا جاتا۔
وکلاء کے ہاتھوں ایک پولیس والے کی پٹائی والے اس واقعے نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔مثلاََ اگر پٹائی کرنے پر ایک پولیس والا معطل ہوسکتا ہے اور اسکے خلاف محکمانہ کاروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے تو کیا وکلاء آسمانی مخلوق ہیں کہ قانون ہاتھ میں لینے پر انکے خلاف کسی قسم کی کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاسکتی۔ کیا بارکونسلوں کا کام صرف اور صرف وکلاء کو لائسنس کا اجراء ہے۔ کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر کسی وکیل کا لائسنس معطل کرکے اسکے خلاف انکوائری کیوں شروع نہیں کی جاتی۔ اس سے قبل بھی بے شمار ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ وکلاء نے پولیس ملازمان ، افسران حتی کہ ججوں کو بھی تھپڑوں اور جوتوں کا نشانہ بنایا لیکن وہ وکلاء آج بھی انہی عدالتوں میں دندناتے پھرتے ہیں۔ انکے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔ باامر مجبوری اگر کوئی ایکشن لیا جاتا ہے تو بات صلح صفائی تک جاکر ختم ہوجاتی ہے۔ 
بی اے کی ڈگری لینے کے بعد اگر آپ لاء کا امتحان پاس کرلیں اور وکالت کی پریکٹس شروع کردیں تو آپ نہ صرف اپنے محلے کے چوہدری بن جاتے ہیں بلکہ قانون کی دھجیاں اڑانے ، ناجائز تجاوزات لگوانے، ہر دونمبر کام کروانے ، بے دھڑک افسران کے کمروں میں گھسنے اور ان سے جائز و ناجائز کام کروانے کا آپکو لائسنس بھی مل جاتا ہے۔ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ہر وکیل برا ہے بے شمار اچھے وکیل بھی موجود ہیں مگر 2007ء میں شروع ہوئی چیف جسٹس بحالی تحریک نے وکیل برادری کو انصاف دلانے والوں کی بجائے ایک ڈنڈا بردار فور س بنا دیا ہے۔ یہ واحد ایسی برادری ہے جو شاید خود کو قانون سے ماورا ء متصور کرتی ہے۔ 

درج بالا واقعہ کے ردعمل میں متعلقہ وکلاء کے خلاف دہشت گردی دفعات کے تحت ایک عدد ایف آئی آر کا اندراج اسلام پورہ تھانے میں ہوچکا ہے تاہم ان قوانین میں پائے جانے والے سقم، قانونی موشگافیوں اور عدالتی نظام کی کمزوریوں کی بدولت دہشت گردی کی ان دفعات کو ثابت کرنا ممکن نہیں رہے گا دوسری طرف مارکھانے والے پولیس ملازم کو دی جانے والی دھمکیاں بھی کارگر ثابت ہوں گی ۔

اگرچہ سپریم کورٹ نے اس واقع کا نوٹس لے لیا ہے مگر سوا ل یہ ہے کہ کیا وہ پولیس افسر جسکی پٹائی ہوئی اور دنیا بھر میں بدنامی ہوئی ، کیا اسے انصاف مل پائے گا؟کیا عدالت عالیہ پندرہ عدد وکلاء کو سز ا دے پائے گی۔ کیا بار کونسل لاہور ان پندرہ وکیلوں کے لائسنس کینسل کرے گی؟یہ چند ایسے چبھتے سوال ہیں جس کا جواب نفی میں ہے۔ کیوں؟ بالفرض عدالت عالیہ ان وکیلوں کو سزا سنا دیتی ہے اور لاہور بار کونسل ان سب کا لائسنس کینسل کردیتی ہے تو ایسی صورتحال میں وکلاء برادری کو اپنا رعب و دبدبہ ختم ہوتا ہوا محسوس ہوگا۔ وہ ہرگز نہیں چاہیں گے کہ انکی اجارہ داری کو زوال آئے لہذا اپنے کالے کوٹوں والے بھائیوں کی حمایت میں تمام وکلاء برادری سڑکوں پر نکل آئے گی اور وہ دھماچوکڑی مچائے گی کہ حکومت کو جان کے لالے پڑجائیں گے۔ حالات بگڑتے دیکھ کر اپوزیشن بھی میدان عمل میں کود پڑے گی اور نئے پاکستان کا سورج ہمیشہ کے لئے غروب ہوجائے گا۔ 

چیف جسٹس صاحب چونکہ ان تمام حالات کا ادراک رکھتے ہیں لہذا وہ حالات اس نہج تک پہنچنے ہی نہیں دیں گے کہ وکلاء برادری جو کبھی اپنے چیف جسٹس کی بحالی کے لئے نکلی تھی ،اب اسکے خلاف نکلے۔لہذا سوموٹو نوٹس کا ممکنہ نتیجہ یہ ہو گا کہ فریقین میں صلح ہوجائے گی اور سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے۔ لیکن قانون کی عزت پر جو بِٹا لگا ہے وہ کبھی بھی دھل نہیں پائے گا۔ خواہ پرانا پاکستان ہو یا نیا پاکستان قانون کی پٹائی ہوتی رہے گی اور انصاف کے علمبردار اتنی مارکٹائی کے باوجود بھی سرعام دندناتے رہیں گے۔

Thursday, October 4, 2018

پنجاب پولیس کو مثالی کیسے بنایا جائے؟


پنجاب پولیس کو مثالی کیسے بنایا جائے؟

نئی حکومت کے آنے کے بعد پنجاب پولیس کو مثالی پولیس بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس سلسلہ میں سابق آئی جی خیبر پختونخواہ کی سربراہی میں ایک کمیشن بھی تشکیل دیا گیا ہے جو پنجاب پولیس کو ایک مثالی پولیس بنانے کے لئے گائیڈ لائنز مہیا کرے گا۔ اس کمیشن نے پنجاب کے تمام اعلیٰ آفیسران سے بھی تجاویز طلب کی ہیں۔اسی سلسلہ میں چندگزارشات ہم بھی پیش کیے دیتے ہیں شاید ان سے پولیس کی بہتری کا کوئی پہلو نکل آئے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ انسان کوئی نوکری کیوں کرتا ہے۔ظاہر ہے پیٹ کی خاطر ۔لیکن اگر پولیس کی نوکری کرنے سے ایک پولیس والے کا اپنا اور خاندان کا پیٹ ہی نہ بھر پائے تو لازماََ وہ چور راستے ڈھونڈے گا۔ لہذا سب سے پہلے تو پولیس والوں کی تنخواہیں اور مراعات کم از کم عدلیہ یا سول سیکریٹریٹ کے ملازمین کے برابر کی جائیں۔ یہاں کچھ لوگ اعتراض کریں گے کہ کچھ عرصہ پہلے خادم اعلیٰ نے بھی تو پولیس کی تنخواہیں بڑھائیں تھیں مگر پولیس جوں کی توں ہی رہی تو عرض ہے کہ پولیس کو ٹھیک کرنا ہے تو پہلے اسکے تمام ضروری لوازمات پورے کرنے پڑیں گے۔ اگرچہ خادم اعلیٰ پنجاب نے پولیس کی تنخواہیں بڑھائیں تھیں مگر سیاسی اثرورسوخ سے آزاد نہیں کیا تھا کیونکہ علاقے کا ایس ایچ او بھی ایم این اے اور ایم پی اے کی مرضی کے بغیر نہیں لگتا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر پنجاب پولیس کو مثالی پولیس بنانا ہے تو پہلے اسے سیاسی اثرورسوخ سے آزاد کیا جائے جیسا کہ خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت نے کیا۔ سوم، پولیس ملازم جب ڈیوٹی پر آتا ہے تو اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ گھر واپسی کب ہوگی جسکی وجہ سے اسکی گھریلو زندگی پر انتہائی برا اثر پڑتا ہے ۔ ماں، باپ ، بیوی، بچے ، دوست اور عزیزو اقارب کسی کو وقت نہیں دے پاتاحتی کہ کسی کی شادی کی تقریب میں شمولیت اختیار کرنی ہو یا کسی عزیز کے جنازہ میں شرکت کرنی ہو تو بچارے ہاتھوں میں عرضیاں پکڑے افسروں کے دفاتر کے چکر لگا رہے ہوتے ہیں۔جس انسان کی اپنی فیملی لائف اتنی ڈسٹرب ہو وہ دوسروں کو کیا تحفظ فراہم کرے گا۔ لہذا پہلے پولیس والے کو گارنٹی دیجئے کہ اسے صرف آٹھ گھنٹے ڈیوٹی کرنی ہے اور ہر ہفتے ایک چھٹی بھی ملے گی اور ڈیوٹی ختم کرنے کے بعد یا چھٹی والے دن اسے کسی صورت بھی ڈیوٹی پر نہیں بلایا جائے گا تو دیکھئے گا پولیس کا کلچر کیسے بدلتا ہے۔ سرکای چھٹیوں کے دوران جب تمام سرکاری محکموں کے ملازمین چھٹیوں پر ہوتے ہیں تو پولیس ملازمین تب بھی ڈیوٹی پر ہوتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف دوسرے سرکاری ملازمین ہفتے اور اتوار کی چھٹیوں کے علاوہ بھی ایک سال میں چوبیس چھٹیاں انجوائے کرتے ہیں مگر بیچارے پولیس ملازم کو ہفتہ واری ریسٹ بھی مل جائے تو وہ غنیمت جانتا ہے ۔مزید یہ کہ دوسرے سرکاری ملازمین کی طرح پولیس ملازم کو بھی سال میں چوبیس چھٹیاں گزارنے کا حق حاصل ہے مگر اپنا یہ حق حاصل کرنے کے لئے بھی اسے کئی طرح کے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ ایک چھٹی لینے کے لئے دس جگہوں سے درخواست فارورڈ کروا کر چھٹی ملتی بھی ہے تو محرر آڑے آجاتا ہے کہ کمی نفری کی وجہ سے آپکی روانگی نہیں ہوسکتی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ پولیس کی ناقص کارکردگی کا ایک بڑا اور چوتھاعنصر نفری کی کمی ہے۔ لہذا پولیس کی کارکردگی کی بہتری کے لئے پولیس ملازمین کی اتنی تعداد میں بھرتی ضروری ہے کہ کمی نفری کی شکایت نہ رہے۔پنجم، زیادہ تر سرکاری محکموں میں سرکاری ملازمین کی یونین اور تنظیمیں موجود ہیں جو انکے حقوق کا تحفظ کرتی ہیں اور کسی زیادتی کی صورت میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتی ہیں لیکن پولیس ملازمین کو نہ تو یونین بنانے کی اجازت ہے اور نہ ہی احتجاج کرنے کی اجازت۔ ایک پسے ہوئے شخص کو جب بولنے یا احتجاج کی اجازت بھی نہیں ہوگی تو اسکی فرسٹریشن بڑھے گی ۔ یہاں سوال اٹھے گا کہ پولیس ایک سیکیورٹی ایجنسی ہے جس میں یونین کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ بجا ہے مگر کوئی ایسا پلیٹ فارم بنا دیا جائے جہاں وہ اپنا احتجاج افسران بالا کو ریکارڈ کروائے تو اسکے خلاف کوئی محکمانہ کاروائی عمل میں نہ لائی جائے گی بلکہ اگر وہ سچا ہو تو اسکے ساتھ کی گئی زیادتی کا ازالہ کیا جائیگا۔ ششم، پولیس ملازمین کو اپنی ساری سروس کے دوران تین چیزوں کا شدت سے انتظار ہوتا ہے جن میں سے دو چیزوں یعنی چھٹی اور تنخواہ کا پہلے ذکر ہوچکا ہے۔ تیسری چیز جسکا انتظار ایک پولیس ملازم کو ساری عمر رہتاہے وہ اگلے عہدے پر ترقی ہے۔ پولیس کا سب سے نچلا رینک کانسٹیبل کا ہے جبکہ پنجاب پولیس میں ایک کہاوت زبان زد عام ہے کہ "کانسٹیبل سے چھوٹا رینک کوئی نہیں اور راجن پور سے آگے ضلع کوئی نہیں، لہذا اکھاڑ لو جو اکھاڑنا ہے" یہ ایک کہاوت پنجاب پولیس کے پسے ہوئے طبقے کی صحیح ترجمانی کرتی ہے۔ اس کہاوت کی گہرائی اور اس میں چھپے کرب کو پہچان لیا جائے تو کئی مسائل حل ہوجائیں گے۔ داراصل پنجاب پولیس کا سسٹم طبقاتی نظام کی شکل اختیار کرچکا ہے جیسے ہندوؤں میں ذات پات کا نظام ہے۔اعلی آفیسران براہمن، رینکر ایس پیز اور ڈی ایس پیز شتری، انسپکٹر، سب انسپکٹراور اے ایس آئی ویش جبکہ کانسٹیبل بیچارے شودر کی حثیت رکھتے ہیں۔ خال ہی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شودر یعنی کانسٹیبل کے عہدے کا پولیس ملازم شتری یعنی ایس پی یا ڈی ایس پی کے عہدے پر بھی پہنچ پائے۔ اس طبقاتی نظام کے خاتمے میں ہی پنجاب پولیس کی ترقی کا راز پنہاں ہے۔ ہفتم، جسطرح پاک فوج کے ملازمین کومیڈیکل کی سہولیات میسر ہوتی ہیں اور انکے بچوں کو فری تعلیمی مواقع میسر ہیں ایسے ہی مواقع پولیس ملازمین کو بھی فراہم کیے جائیں۔ ایک فوجی اپنے ملک کی خاطر جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا تو اسکی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ اسے یقین ہے کہ پاک فوج اسکے بیوی، بچوں اور والدین کی دیکھ بھال کرے گی۔ جبکہ دوسری طرف پولیس ملازم کسی پولیس مقابلے میں جانے سے اس لئے بھی کتراتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ اگر انہیں کچھ ہوگیا تو انکے بیوی بچوں کا کوئی والی وارث نہیں ہوگا ۔ الٹا اسکی بیوہ کو پنشن کے لئے بھی دفتروں کے دھکے کھانے پڑیں گے۔ ہشتم، آخر میں وہ الزام جو سب سے زیادہ پنجاب پولیس پر لگایا جاتا ہے وہ ہے کرپشن۔تو جناب اوپر بیان کردہ تمام تر سہولیات کی عدم فراہمی کا نتیجہ یہ ناسور ہے۔ پہلے ان سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائیں پھر بھی اگر کوئی پولیس ملازم کرپشن کرے تو سولی پر چڑھا دیا جائے۔ دوسرا یہ کہ کرپٹ صرف پولیس ہی نہیں ہمارا معاشرہ بھی کرپٹ ہے۔ مثلاََ اگر تھانے میں کسی مقدمہ کا اندراج ہوتا ہے تو دونوں فریقین شفارش یا پیسے سے پولیس ملازمین کو مجبور کردیتے ہیں کہ انکو سپورٹ کیا جائے۔ ٹریفک پولیس اگر روک لے توعوام دوسو کا چالان کروانے کی بجائے رشوت دینے کو ترجیح دیتی ہے۔ تاجر حضرات اپنی دکانوں کے سامنے ریڑھیاں اور ٹھیلے خود لگواتے ہیں جب پولیس والے انکو ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں تو سفارش یا رشوت سے حل نکالا جاتا ہے۔لیکن یہ مسائل دنیا میں ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔پولیس ملازمین کو بہتر سہولیات مہیا کرکے ان تمام مصائب و مشکلات پر قابو پایا جاسکتا ہے لیکن اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف اور صرف ڈنڈے کے زور پر پنجاب پولیس کو سیدھا کر لیا جائے گا تو یہ آپکی خام خیالی ہے۔ 

Wednesday, October 3, 2018

تبدیلی کی چیخیں


تبدیلی کی چیخیں

جب تک اقتدار کا ہما کپتان کے سر پر نہیں بیٹھا تھا تب تک ہر تقریر میں ایک ہی نعرہ سننے کو ملتا تھا کہ تبدیلی آنہیں رہی بلکہ تبدیلی آگئی ہے لیکن جب سے عمران خان وزارت عظمی کے عہدے پر براجمان ہوا ہے یہ نعرہ پھر سے سننے کو کان ترس گئے ہیں۔ اقتدار ملنے سے قبل جو مکھڑا ہمیشہ مسکراتا ہوا نظر آتا تھا اب اس پر ہروقت سنجیدگی چھائی رہتی ہے۔ وہ چہرہ جو اکثروبیشتر میڈیا کے سامنے رہتا تھا اب ہفتوں بعد بھی بمشکل ہی کیمرے کے سامنے آتا ہے۔ وزیراعظم کی اس حالت زار کی کئی وجوہات ہیں۔ اول، پی ٹی آئی اس سے قبل قومی سطح پر کبھی اقتدار میں نہیں آئی تھی لہذا وہ کسی کو جواب دہ نہیں تھی لیکن حکومت وقت پر سوالات اٹھانا حتی کہ الزام تراشی کرنا انکا حق گردانا جاتا تھا۔اب چونکہ پی ٹی آئی حکومت میں ہے لہذا تبدیلی کے دعوے دار متفکر ہیں کہ کس طرح عوام کو یقین دلایا جائے کہ تبدیلی آگئی ہے۔ دوم، اقتدار سنبھالنے کے بعد سب سے پہلا کام ملک کے نظم ونسق کو چلانا ہوتا ہے ۔ لہذا حکمرانوں کے جب سے معلوم پڑا ہے کہ سابقہ حکومتوں نے خزانے کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھتے ہوئے بے دریغ استعمال کیا جسکی بدولت قومی خزانہ خالی ہونے کے ساتھ ساتھ تیس ارب ڈالر کے قرضے، ان پر یومیہ چھ ارب ڈالر سود کی ادائیگی، ڈیڑھ سو ارب گیس اور ساڑھے گیارہ سو ارب بجلی کے گردشی قرضے منہ چڑا رہے ہیں تو ایسے میں کوئی کیسے مسکرا سکتا ہے؟کپتان کے دنوں کا چین ہی نہیں راتوں کی نیندیں بھی حرام ہوچکی ہیں۔ سوم، کپتان کو اقتدار سنبھالنے کے بعدجب معلوم ہواکہ انہوں نے عوام سے لوڈشیدنگ کے خاتمے کے جو وعدے کیے تھے ان کے لئے فنڈز درکار نہیں تو انکی پریشانی بڑھ گئی ۔اسی دوران ہی چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر کے لئے اکاؤنٹ کھول کر عوام سے چندے کی اپیل کر دی۔ سر منڈاتے ہی اولے پڑنے کے مصداق وزیراعظم کو بھی اس مہم میں شمولیت اختیار کرکے عوام بالخصوص اووسیز پاکستانیوں سے چندے کی اپیل کرنی پڑی جس پر اپوزیشن نے خوب بھد اڑائی کہ ہمیشہ چندوں پر ادارے چلانے والوں کو کیا خبر کہ حکومت کا نظم و نسق کسطرح چلاتے ہیں۔ چہارم، کرپشن کے نام پر دھرنے دینے والی پارٹی کو جب حکومت ملی تو معلوم ہوا کہ اب نعروں کا نہیں بلکہ عمل کا وقت ہے لیکن مسئلہ یہ درپیش ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں اوپر سے لیکر نیچے تک ہر چھوٹا بڑا کرپشن میں ملوث ہے وہاں کرپشن کے جن پر کیسے قابو پایا جائے۔ مزید یہ کہ بڑے بڑے لوگوں کی کرپشن کو پکڑنے کی راہ میں کئی قانونی موشگافیاں حائل ہیں۔ بالفرض اگر حکومت وقت کو سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کو پکڑنا ہے تو پہلے انہیں عدالت میں ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ کرپٹ ہیں جسکے لئے کافی وقت درکار ہے جبکہ حکومت کے پاس وقت ہی تو نہیں ہے کیونکہ حکومت وقت کو اپنے اعلان کردہ سو دنوں میں کچھ کر کے دکھانا ہے۔ علاوہ ازیں ہمارا عدالتی نظام بھی اتنا بوسیدہ ہے کہ جسکے حق میں فیصلہ آجائے وہ کہتا ہے کہ انصاف ہوا ہے جبکہ مخالفین ظلم ڈھائے جانے کی دھائی دیتے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں حکومتِ وقت کا کرپٹ لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ پنجم،سابقہ حکمران اگر کرپٹ تھے تو موجودہ حکومتی پارٹی میں بھی کوئی فرشتے نہیں ہیں۔ اوپر سے اتحادی جماعتوں کو ساتھ لیکر چلنے والی تلوار ہر وقت سرپر منڈلاتی رہے گی ۔ اگر آپکو یاد ہو تو پارٹی ٹکٹس جاری کرتے ہوئے کپتان نے کہا تھا کہ ہمیں الیکٹ ایبلز پر انحصار کرنا پڑے گا ۔یہی الیکٹ ایبلز اور اتحادی جماعتوں کے اراکین ہی اب حکومت کی کرپشن کے خلاف تحریک کے آڑے آئیں گے۔ ششم، پیسہ اور اختیار دیکھ کر بڑے بڑوں کا ایمان ڈول جاتا ہے تو پی ٹی آئی والے کس کھیت کی مولی ہیں۔ملک کی باگ دوڑ ابھی ابھی تو انکے ہاتھ میں آئی ہے ۔یہ تو کچھ عرصے بعد ہی عیاں ہوگا کہ کس رکن اسمبلی ، وزیر یا مشیر نے کیا گل کھلائے ہیں۔ لہذا کپتان کو اپنی پارٹی کے چوروں اور ڈکیٹوں کو بھی نکیل ڈال کے رکھنی پڑے گی۔ ہفتم، کپتان کو کرپشن کو نکیل ڈالنے اور حکومتی انتظام وانصرام چلانے کے لئے اپنے وعدے کے مطابق اداروں کو مضبوط کرنا ہے جسکے لئے وقت، محنت اور خلوص نیت درکار ہے اور یہ خصوصیات کپتان کے علاوہ خال ہی حکومتی پارٹی کے کسی لیڈر ، وزیر یا مشیر میں نظر آتی ہیں۔ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ فی الحال تبدیلی کے دعوے دار وں کی چیخیں نکل رہی ہیں کہ اتنے تباہ شدہ ملک کو کیسے بام عروج پر پہنچایا جائے؟لیکن یہی تو وزیراعظم کا اصل امتحان ہے کیونکہ کہنے والے کہتے ہیں کہ کپتان نے ہرممکن کو ممکن کر دکھایا ہے۔

Monday, October 1, 2018

ای چلاننگ


ای چلاننگ 

آپ لاہور میں داخل ہوں، سارا دن سڑکوں پر آوارہ گردی کریں، کسی ٹریفک سنگل کی پرواہ کیے بغیر گاڑی چلاتے رہیں۔ دوستوں کو سوشل میڈیاپر لائیو دکھائیں کہ آپ اتنے طاقتور آدمی ہیں کہ کسی ٹریفک پولیس اہلکار نے آپکوروکنے کی جرات نہیں کی۔تو جناب ایسا ممکن ہے۔ لیکن اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ چند روز بعد آپ کے گھر کے دروازے پر ایک کورئیر والا آئے ، آپکو ایک کاغذ تھمائے جسے کھولنے پر آپکو ہزار واٹ کا بجلی کا جھٹکا لگے ، آپ گرتے گرتے بچیں کیونکہ آپکی لاہور شہر میں ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑانے کے تصویری ثبوت آپکے سامنے ہیں اور ساتھ میں تحریر ہے کہ من مرضی کرنے پر آپکو اتنے ہزار جرمانہ کیا گیا ہے جو کہ آپ نے دس دن کے اندر ادا کرنا ہے بصورت دیگر آپکے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔یہ سب لاہور میں نافذ کیے گئے ای چلاننگ سسٹم کی بدولت ممکن ہوا ہے؟ تاہم اسکے متعلق کچھ شکوک و شبہات اور غلط فہمیاں جنم لے چکی ہیں؟آئیے حقائق سے پردہ اٹھانے کی سعی کرتے ہیں۔ شہباز شریف کے دور حکومت میں لاہور میں دہشت گردی کو مانیٹر کرنے کے لئے ایک اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جسے سیف سٹی اتھارٹی کا نام دیا گیا اس اتھارٹی نے لاہور شہر میں کم و بیش آٹھ ہزار کیمروں کی تنصیب کی ۔ لیکن کیمروں کی تنصیب کے وقت اس بات کا بھی خیال رکھا گیا کہ جب دہشت گردی کا خاتمہ ہوجائے گا تب تو یہ کیمرے بے کار ہوجائیں گے لہذا ان کیمروں میں سے کئی ہزار کیمروں کو ٹریفک سگنلز سے منسلک کر دیا گیا تاکہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کی حرکات و سکنات کو نوٹ کیا جاسکے۔ اگرچہ لاہور میں اس وقت روزانہ لاکھوں کی تعداد میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں تاہم سیف سٹی اتھارٹی کے ایک دن میں جاری کردہ ای چالانوں کی زیادہ سے زیادہ حد صرف پچاس ہزار ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ تاحال اتنی تعداد میں کیمروں کی تنصیب نہیں کی جاسکی جسکا منصوبہ بنایا گیا تھا۔دوم، عام طور پر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ ای چالاننگ پورے لاہور شہر میں ہورہی ہے تو ایسا بالکل بھی نہیں ہے ۔ فی الحال لاہور کے صرف نوے عدد ٹریفک اشارے ایسے ہیں جن پر ای چالاننگ ہورہی ہے اور جہاں ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کو اشارے کی خلاف ورزی کرنے والوں کی گاڑی کو روکنے کی ممانعت کردی گئی ہے۔ سوم، عام تاثر یہ بھی ہے کہ ٹریفک اشارہ جیسے ہی سبز سے پیلا ہوا تو تصویرلے لی جائے گی۔ اسی خوف کی وجہ سے لوگ اشارہ بند ہونے پر جلدی جلدی گاڑی روکنے کی کوشش کرتے ہیں جسکی بدولت پیچھے سے تیزی سے آنے والی گاڑی سے ٹکر ہوجاتی ہے جو مالی نقصان کا باعث بنتی ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ ای چالاننگ کا سسٹم اگرچہ خود کار طریقے سے کام کرتا ہے۔لیکن جب اشارہ سبز سے پیلا اور بالآخر سرخ ہوجاتا ہے تو تب جو گاڑی اشارے کی خلاف ورزی کرتی ہے ، کیمرہ اس گاڑی بالخصوص گاڑی کی نمبر پلیٹ کی تصویر لے کر سسٹم کو بھیجتاہے۔سسٹم ایک عدد ای چالان گاڑی کے مالک کے نام تیار کرکے اسکا پرنٹ نکال دیتا ہے جسے فوری طور پر متعلقہ پتے پر بذریعہ کورئیر ارسال کر دیا جاتا ہے جسے دس روز کے اندر اندر جمع کروانا ضروری ہوتا ہے بصورت دیگر کئی اقسام کی قانونی چارہ جوئیاں عمل میں لائی جاسکتی ہیں مثلاََ ٹریفک پولیس گاڑی کو قبضہ میں لے سکتی ہے جو بقایا جات اور جرمانے کی رقم کی ادائیگی کے ثبوت فراہم کرنے کے بعد گاڑی مالک کے حوالے کرے گی، دوم،اگر آپ ای چالان کو بروقت پنجاب بینک کی برانچوں میں ادا نہیں کرتے تو چالان کی یہ رقم آپ سے اس وقت وصول کی جائے گی جب آپ گاڑی کے ٹوکن ٹیکس کی ادائیگی کریں گے۔ سوم، اگر آپ ای چالان کی رقم بھی ادا نہیں کرتے اور گاڑی کے ٹوکن کی ادائیگی بھی نہیں کرتے تو محکمہ ایکسائز کی ٹیمیں جو ہر روز کہیں نہ کہیں ناکے لگا کر گاڑیوں کے کاغذات چیک کررہی ہوتی ہیں انکے ہتھے چڑھ جائیں گے۔ تب ممکن ہے آپ اپنی فیملی کے ساتھ ہوں مگر ای چالان اور ٹوکن ٹیکس ادا نہ کرکے جس طرح آپ نے ملکی قوانین کا مذاق اڑایا اسی طرح محکمہ ایکسائز کی ٹیمیں یہ نہیں دیکھیں گی کہ آپکے ہمراہ آپکی فیملی ہے آپکی گاڑی فوری قبضہ میں لے لی جائے گی اور آپکو فیملی کے سامنے شرمند ہ ہونا پڑیگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ درج بالا تمام صورتحال سے بچ جائیں لیکن اب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی اپنے شکنجے پوری طرح کس لئے ہیں۔جب کبھی آپ گاڑی کو فروخت کرنا چاہیں گے تو اس وقت تک مالکانہ حقوق کی منتقلی ممکن نہیں ہوگی جب تک آپ کے ذمہ ای چالان کی واجب الادا رقم سرکاری خزانے میں جمع نہیں ہوجاتی۔فی الحال ای چالاننگ کا یہ سسٹم صرف ٹریفک اشاروں کی خلاف ورزی پر قانونی کاروائی عمل میں لارہا ہے لیکن مستقبل میں دوسری ٹریفک وائلیشنز پر بھی کاروائی ہوگی۔ بظاہر یہی نظر آرہا ہے کہ قانون اپنے شکنجے کس رہا ہے۔