Thursday, May 24, 2018

FATA's merger in KPK


فاٹا کاخیبر پختونخواہ میں انضمام

صوبہ خیبر پختونخواہ اور افغانستان کے درمیان ایک قبائلی پٹی کو فاٹا کہا جاتا ہے جس پر پچھلے ستر سالوں سے ایک کالا قانون ایف سی آر لاگو ہے جو کسی طور بھی انسانی قانون کہلانے کے لائق نہیں۔ اس قبائلی پٹی پر رہائش پذیر لوگوں کو سپریم کورٹ آف پاکستان تک رسائی تھی اور نہ ہی پشاور ہائی کورٹ تک بلکہ پولیٹیکل ایجنٹ کی طرف سے صادر کیا گیا فیصلہ ہی حتمی تصور کیا جاتا تھا۔ تاہم 24مئی کا دن فاٹا کے لوگوں کے لئے خوشیوں کی ایک نئی نوید لے کر آیا جب قومی اسمبلی میں فاٹا کا خیبرپختونخواہ میں انضمام کا بل گیارہ کے مقابلے میں 229ووٹوں کی بھاری اکثریت سے پاس ہوا۔ اور ان الفاظ کی اشاعت تک یہ بل سینٹ سے بھی بھاری اکثریت سے پاس ہوچکا ہوگا اور فاٹا خیبر پختونخواہ کا حصہ بن چکا ہوگا اور یوں فاٹاکے لوگ بھی نہ صرف عام پاکستانیوں کو میسر تمام آئینی و بنیادی حقوق حاصل کرپائیں گے بلکہ انکے لئے ترقی کی نئی راہیں بھی کھلیں گی۔لیکن کامیابی کا یہ سفر اتنا سہل نہیں تھا اس میں کئی طرح کی مشکلات آئیں ۔جہاں اپنوں نے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں تو وہیں غیروں نے مدد بھی فراہم کی۔ مثلاََمولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی نے شروع سے ہی اس انضمام کی مخالفت کی۔ فضل الرحمن کا مطالبہ تھا کہ فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرنے کی بجائے ایک نیا صوبہ بنایا جائے۔جبکہ محمود اچکزئی تو فاٹا کو پاکستان کا حصہ ہی نہیں سمجھتے ۔انکے بقول فاٹا افغانستان کا حصہ ہے۔ محمود اچکزئی کے تانے بانے کہاں جا ملتے ہیں یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔لہذا انہوں نے اس انضمام کی مخالفت ہی کرنی تھی ۔ لیکن فضل الرحمن کی مخالفت سمجھ سے بالا ترہے۔ مولانا صاحب انضمام کی بجائے ایک نیا صوبہ بنانے کے حق میں تھے ۔مولانا کا مطالبہ پورا کرنا فی الحال ممکن نہ تھا کیونکہ فاٹا کا علاقہ دہشت گردی سے شدید متاثرہ ہے۔ اور ابھی بھی فوج کئی جگہوں پر دہشت گردوں سے برسرپیکار ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشنز سے انفراسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے اگرچہ فوج نے بحالی کا کام تیزی سے جاری رکھا ہوا ہے مگر مکمل بحالی کے لئے ابھی وقت درکار ہے۔ دوم، مقامی حکومت کا انتظام و انصرام چلانے کے لئے وہاں منظم ادارے موجود نہیں۔ سوم، نئی وزارتوں، عدالتوں اور سول محکموں کے بنانے اور انکو چلانے کے لئے جتنا سرمایہ درکار ہوتا ہے وہ دستیاب نہیں۔ چہارم، دہائیوں سے دہشت گردی سے متاثرہ ہونے کی بدولت سرمایہ کار ابھی بھی وہاں جانے سے ڈرتا ہے۔ ایسی صورت میں فاٹا کو ایک نئے صوبہ کا رو پ دینا فاٹا کے لوگوں سے زیادتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تمام بڑی قومی و علاقائی سیاسی پارٹیوں خواہ وہ مسلم لیگ ن ہو، تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی ، اے این پی ، شیرپاؤ پارٹی ، جماعت اسلامی ،مسلم لیگ ق اور دیگر سیاسی جماعتوں نے فاٹاکے خیبرپختونخواہ میں انضمام کی حمایت کی۔ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے فاٹا کے لوگوں کی رائے معلوم کرنے کے لئے اپنے مشیر سرتاج عزیر کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے ڈیڑھ سال کے عرصہ میں فاٹا کے ہر طبقہ کے لوگوں کی رائے معلوم کرکے فاٹا اصلاحات پیش کیں۔ ان اصلاحات کا بل پچھلے سال دسمبر میں پارلیمنٹ میں پیش کیا جانا تھا مگر آخری لمحات میں مولانا فضل الرحمن کے مطالبے پر یہ بل کاز لسٹ سے نکال دیا گیا جس پر ارکان اسمبلی نے شدید احتجاج کیا اور اسمبلی سے واک آؤٹ کیا۔ اس سے قبل جماعت اسلامی نے فاٹا سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا اورحکومت کو باور کرایا کہ اگر انکے انضمام کا مطالبہ نہیں مانا جاتا تو پھر جماعت اسلامی پورے پاکستان سے لوگوں کو اسلام آباد اکٹھا کرے گی۔ اورلوگوں کے سمندر کے آگے حکومت ٹھہر نہیں پائے گی۔ بعدازاں تحریک انصاف نے بھی لانگ مارچ کی دھمکی دی۔ قومی اسمبلی میں بل پر اتفاق رائے نہ ہونے کی بدولت بل کو اسمبلی میں پیش نہ کیا گیا اور اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔ تاہم اپریل 2018ء میں جب صدر پاکستان کے دستخطوں سے سپریم کورٹ آف پاکستان اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھا دیا گیا تو فاٹا کے لوگوں کو روشنی کی ایک کرن نظر آئی ۔لہذا نہوں نے زوروشور سے فاٹا انضمام کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔یوں کامیابی کا یہ سفر مئی 2018ء میں مکمل ہوا۔ فاٹا کے انضمام کا کریڈٹ کسی ایک سیاسی پارٹی یا طبقہ ء فکر کو نہیں دیا جاسکتا ۔ ہم نے دیکھا کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد یہ وہ واحد موقع تھا جب سوائے چند گنے چنے لوگوں کے تمام قوم ایک ہی پیج پر نظر آئی۔ وکیل ، صحافی، طلباوطالبات، ڈاکٹرز، سیاسی ورکرز، سیاستدان حتی کہ فوج نے بھی فاٹا کے خبیر پختونخواہ میں انضمام کے مطالبے کی حمایت کی۔ صد شکر کہ اتنا بڑا فیصلہ ایک بھی گولی یاڈنڈا چلائے بغیر باہمی اتفاق رائے سے طے پاگیا ہے۔ دعا ہے کہ آئندہ بھی اسطرح کے تمام فیصلے گالی گلوچ، ہڑتالوں، سرکاری و نجی املاک کونقصان پہنچائے بغیر ہی طے پائیں تاکہ پاکستان محبت اور امن آشتی کا گہوارہ بن جائے ۔ آمین۔

Tuesday, May 15, 2018

فلسطین اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ


فلسطین اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ

ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر منتخب ہونے سے قبل بھی عجیب و غریب حرکات کرتا رہا ہے جسکی بدولت مسخرے کے نام سے جانا و پہچانا گیا۔ موصوف کی وجہ شہرت یہ ہے کہ اس نے کوئی بھی قدم سنجیدگی سے نہیں اٹھایا۔ صدارتی انتخابات کے دوران بھی عجیب حرکات کا مرتکب ہوا اور بعد ازاں بھی اپنا مسخرہ پن جاری رکھا۔اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کی تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقلی کا فیصلہ بھی اسی مسخرے پن کی ایک کڑی ہے۔ ٹرمپ نے جب یہ فیصلہ کیا تھا تب بھی دنیا بھر سے تنقید کے نشتر چلے تھے کہ امریکہ اس اقدام سے باز رہے کیونکہ اسکے سنگین نتائج برآمد ہونگے لیکن وہ ٹرمپ ہی کیا جو کسی بات کو سنجیدہ لے۔ موصوف اپنے اکھڑ پن پر اڑے رہے اور بالآخر چودہ مئی کو اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنایا اور امریکی سفارت خانے کو مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرکے اقوام متحدہ کے ساتھ ساتھ تمام مسلم و غیر مسلم ممالک کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ رسید کیا ۔ سفارت خانے کی اس منتقلی کے خلاف احتجاج کے لئے ساڑھے تین ہزار سے زائد فلسطینی اسرائیلی سرحد کے قریب جمع ہوئے جن میں سب سے زیادہ تعداد غزہ میں جمع ہوئی۔ ان مظاہروں کو گریٹ مارچ آف ریٹرن کا نام دیا گیا۔اگرچہ یہ احتجاج پرامن تھا تاہم اسرائیلی فوج نے بربریت کی انتہا کردی ۔نہتے فلسطینی مظاہرین پر ڈرونز سے شیلنگ کی گئی ،پٹرول بم پھینکے گئے، ٹینکوں سے گولہ باری کی گئی اور پانچ مقامات پر فضائی حملے بھی کیئے گئے جسکی بدولت آٹھ بچوں سمیت 58فلسطینی شہید اور 2700سے زائد زخمی ہوئے۔ زخمیوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے اموات بڑھنے کا خدشہ ہے۔ اسرائیلی تششد د کے جواب میں فلسطینی مظاہرین نے اسرائیل ، امریکہ مردہ باد کے نعرے لگائے اور اسرائیلی فورسز پر پتھراؤبھی کیا۔ اسرائیلی قتل عام کی بدولت فلسطینی صدر محمود عباس نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ مقبوضہ بیت المقدس میں امریکہ سفارت خانے کا افتتاح ٹرمپ کی بیٹی ایوانیکا ٹرمپ نے کیا جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے وڈیولنک سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دن اسرائیل کے لئے عظیم دن ہے۔ اب ہم بیت المقدس میں ہیں اور یہیں رہیں گے۔ بظاہر دیکھا جائے تو سفارت خانے کی منتقلی کا یہ عمل امریکہ کی بجائے صرف اور صرف ڈونلڈ ٹرمپ کا اقدام دیکھائی دیتا ہے کیونکہ امریکہ کی یہ تاریخ رہی ہے کہ امریکہ جب بین الاقوامی سطح پر کوئی بڑا قدم اٹھاتا ہے تو اسکے بڑے اتحادی مثلا برطانیہ، فرانس، اوردیگر یورپی ممالک اسکے دائیں بائیں کھڑے ہوتے ہیں۔ سفارت خانے کی منتقلی کے افتتاح کے لئے تمام بڑے ممالک کے سربراہان و نمائندگان کو دعوت نامے ارسال کیے گئے تاہم کسی ایک بھی اہم ملک کے نمائندے نے شرکت نہیں کی جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ قدم اُٹھاتے ہوئے کسی کو اعتماد میں نہیں لیا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر سے تنقید کے نشتر امریکہ کی طرف برسائے جارہے ہیں۔ جنوبی افریقہ اور ترکی نے اپنے سفیروں کو اسرائیل سے واپس بلا لیا ہے ۔ترکی کے وزیر اعظم طیب اردگان نے کہا ہے کہ امریکہ نے ثالث کی حثیت کھو دی ہے کیونکہ مسئلے کو حل کرنے کی بجائے امریکہ خود مسئلے کا حصہ بن گیا ہے۔ پاکستانی ترجمان نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سفارت خانے کی منتقلی کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے منافی قرار دیا۔ فلسطینی صدر نے کہا کہ امریکہ نے امن عمل سبوتاز کر کے مشرق وسطی میں عدم استحکام پیدا کیا ہے اور عرب دنیا کی بے عزتی کی ہے۔حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے سلامتی کونسل او ر عرب لیگ نے ہنگامی اجلاسوں کا اعلان کر دیا ہے۔ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے یہ وضاحتی نوٹ جاری کیا ہے کہ سفارت خانے کی منتقلی کا یہ مطلب نہیں کہ امریکہ نے اس تنازع میں ایک واضح پوزیشن لے لی ہے بلکہ یہ منتقلی امن عمل کی اہم ضرورت تھی۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے ہلاکتوں کا ذمہ دار حماس کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ بنظر غائر سفارت خانے کی منتقلی ٹرمپ کے صدارتی اقدام کی بجائے تجارتی اقدام زیادہ محسوس ہوتا ہے کیونکہ ٹرمپ سمیت اسکی کابینہ کے بیشتر ارکان کواس سے قبل حکومت کا کوئی تجربہ نہیں ۔ یہ دراصل تجارت پیشہ لوگوں کا ایک ٹولہ ہے جن کو حکومت سے زیادہ اپنے تجارتی مفادات عزیز ہیں۔ٹرمپ کو بخوبی علم ہے کہ یورپ اور امریکہ میں تجارت پر زیادہ تر صیہونی لابی چھائی ہوئی ہے۔ دوسرا ، ٹرمپ کا داماد بھی یہودی ہے لہذا سفارت خانے کو مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرکے یہودیوں کو خوش کیا جا رہا ہے تاکہ صدارتی ٹرم کے اختتام کے بعد اگر اگلی بار ٹرمپ حکومت نہیں بنا پاتا تو کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ تب تک ٹرمپ اپنے تجارتی تعلقات مستحکم کر چکا ہوگا۔ رہی بات فلسطینیوں کی شہادتوں کی تو انکا خون اتنا ارزاں ہوچکا ہے کہ اب تاقیامت شاید ہی انکو انسانی حقوق میسر آئیں کیونکہ انکا مخالف اسرائیل ہے جو امریکہ و یورپ کا چہیتا اور تجارت کے بادشاہوں کا مسکن ہے۔ 

Wednesday, May 9, 2018

جنوبی صوبہ محاذ، پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ


جنوبی صوبہ محاذ، پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ

29ء اپریل کو مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں عوام کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے گیارہ نکاتی منشور پیش کیا ان گیارہ نکات میں سے نواں نقطہ یہ تھا کہ پی ٹی آئی حکومت میں آنے کے بعد جنوبی صوبہ پنجاب کو ایک الگ صوبہ بنائے گی۔ یہ پہلی دفعہ نہیں کہ کسی سیاسی لیڈر نے جنوبی صوبہ پنجاب کے رہنے والوں کو نیا صوبہ بنا کر دینے کی نوید سنائی ہو۔ کیونکہ اس سے قبل ن لیگ کے رہنماؤں نے بھی جنوبی صوبہ پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا وعدہ کیا ۔ن لیگ کی حکومت ختم ہونے کو ہے تاہم ابھی تک اس وعدے سے متعلق ایک قدم بھی نہیں اٹھایا گیا۔ ن لیگ دراصل جنوبی صوبہ پنجاب بنانے کے حق میں نہیں کیونکہ انکو معلوم ہے میاں نوازشریف اگر تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم بنے ہیں تو اسکی وجہ یہ ہے کہ ن لیگ پنجاب سے واضح اکژیت حاصل کرتی ہے۔ پنجاب دنیا کے 85فیصد ممالک سے بڑا صوبہ ہے جو یہاں سے جیت جاتا ہے وہی وفاق میں بھی حکومت بناتا ہے۔ لہذا ن لیگ پنجاب کو دو یا اس سے زائد حصوں میں تقسیم کر کے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی کیوں مارے گی؟تاہم عمران خان کے وعدوں میں تھوڑی بہت سچائی کی جھلک نظر آتی ہے کیونکہ خان نے کبھی صوبائیت کا پرچار کیا ہے اور نہ ہی کسی ایک صوبے کو بنیاد بنا کر حکومت میں آنے کا پلان بنایا ہے۔9مئی کو عمران خان اور جنوبی صوبہ محاذ کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ہے۔ اس معاہدے کے تحت جنوبی صوبہ محاذجوکہ اس وقت 5ایم این ایز اور گیارہ ایم پی ایز پر مشتمل ہے ٹی آئی میں ضم ہوگئی ہے۔ اس معاہدے میںیہ وعدہ کیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت میں آنے کے بعد پہلے 100دنوں میں جنوبی صوبہ پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کے لئے عملی اقدامات اٹھائے گی۔ عمران خان نے جنوبی صوبہ پنجاب کے مطالبے کی حمایت کر کے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اول، جنوبی صوبہ پنجاب جو کہ پنجاب کا استحصال زدہ علاقہ ہے ، انکے مطالبے کی حمایت سے آنے والے انتخابات میں پی ٹی آئی کا ووٹ بینک بڑھے گا۔ دوم، اگر پی ٹی آئی حکومت میں آتی ہے اور جنوبی صوبہ پنجاب کو الگ صوبہ بنادیتی ہے تو عمران خان کا نام جنوبی صوبہ پنجاب کی تاریخ میں امر ہوجائے گا۔ سوم، پنجاب کے دو ٹکڑے کرنے سے شریف خاندان کی پاکستان میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص بادشاہت کا خاتمہ ہوجائیگا۔پنجاب کے دو ٹکڑے ہوجانے کی صورت میں ، شریف خاندان جو کہ ابھی کسی دوسری پارٹی کو خاطر میں نہیں لاتا ، وفاق میں حکومت بنانے کے لئے دوسرے صوبوں کی حمایت کا محتاج ہوگا۔ شریف خاندان کو یہ واضح نظر آرہا ہے کہ انکی بادشاہت کے دن اب ختم ہورہے ہیں یہی وجہ ہے کہ میاں نوازشریف خلائی مخلوق یعنی اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر انگلیاں اٹھارہے ہیں۔ پوری ن لیگ یک زبان دو قالب ہوکر ایک ہی بیانیہ الاپ رہی ہے کہ انکے خلاف سازش کی جارہی ہے۔ ایک منصوبے کے تحت انکے اراکین اسمبلی کو نااہل کروایا جارہا ہے۔ جبکہ دوسری طرف عمران خان کو نہ صرف صادق اور امین ڈکلئیر کروایا جا رہا ہے بلکہ اسے حکومت میں لانے کے لئے سپورٹ بھی دی جارہی ہے۔ کیا ن لیگ کے اس بیانیے کہ الیکشن سے پہلے ہی دھاندلی کی جارہی ہے، میں کوئی وزن ہے؟ماضی قریب یعنی 2013ء کے عام انتخابات سے قبل پاکستان بھر میں ایم پی ایز اور ایم این ایز دھڑا دھڑ ن لیگ میں شمولیت اختیار کر رہے تھے ۔سب کو یہی لگتا تھا کہ ن لیگ کو اسٹیبلشمنٹ کی مکمل سپورٹ حاصل ہے لہذا دیکھا دیکھی لوگ جوک در جوک ن لیگ میں شامل ہوئے ۔نتیجہ یہ نکلا کہ ن لیگ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ بعدازاں عمران خان نے دھاندلی کے الزامات لگا کر دھرنے دیے اور جلسے جلوس نکالے مگر ن لیگ کی حکومت اپنے مدت پوری کرنے کے قریب پہنچ چکی ہے۔ عمران خان نے اپنے حالیہ بیان میں ایک سابق آرمی چیف پر الزام لگایا ہے کہ اس نے نوازشریف کو حکومت میں لانے کے لئے مدد کی۔ اب چونکہ 2018ء کے عام انتخابات قریب ہیں اب ہوا یہ چل نکلی ہے کہ اگلی حکومت عمران خان کی ہوگی لہذا ایم این ایز اور ایم پی ایز دھڑا دھڑا پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔میاں نوازشریف اب الزام لگا رہے ہیں کہ انتخابات سے قبل دھاندلی کی جارہی ہے اور عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کے مدد حاصل ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ عمران خان نے 2013ء کے انتخابات کے متعلق ن لیگ کی حکومت کے خلاف دھاندلی اور اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے جو الزامات لگائے تھے وہ سچے تھے۔اگر عمران خان جھوٹا تھا تو پھر نوازشریف بھی جھوٹ بول رہا ہے۔ اگر عمران خان سچا تھا تو پھر نوازشریف بھی سچ بول رہا ہے۔ قطع نظر اسکے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا، پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ سوائے 1970ء کے عام انتخابات کے ، باقی تمام انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ نے کردار ادا کیا ہے۔ اصغر خان کیس اسکی ایک واضح مثال ہے۔ پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری ادارے ابھی اتنے مضوط نہیں ہوئے کہ اسٹیبلشمنٹ کو نکیل ڈال سکیں۔ مزید یہ کہ جمہوریت کو اتنا نقصان اسٹیبلشمنٹ نے نہیں پہنچایا جتنا خود سیاستدانوں نے پہنچایا ہے۔ لہذا جس عمارت کی بنیاد ہی کمزور ہو اس پر کھڑی کی جانے والی عمارت کی مضبوطی پر ٹھیکیدار کو یقین ہوتا ہے اور نہ ہی مقینوں کو۔ 

Friday, May 4, 2018

خلائی مخلوق ، نوازشریف اور جمہوریت


خلائی مخلوق ، نوازشریف اور جمہوریت۔

سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے اپنے حالیہ بیان میں فرمایا کہ انکا مقابلہ زرداری سے ہے اور نہ کپتان سے بلکہ انکا مقابلہ ایک خلائی مخلوق سے ہے۔ انکی دیکھادیکھی ن لیگ کے باقی لیڈروں نے بھی خلائی مخلوق کو للکارنا شروع کر دیا ہے۔ یہ کون سی خلائی مخلوق ہے جو صرف پاکستان میں اترتی ہے اور اسکا مقابلہ صرف اور صرف ن لیگ سے ہے جب کہ باقی سیاسی پارٹیوں کو استثنی حاصل ہے۔یہاں خلائی مخلوق سے مراد دراصل پاکستانی فوج ہے۔ سوال یہ ہے کہ نوازشریف نے فوج کا نام لینے کی بجائے خلائی مخلوق کا لفظ کیوں استعمال کیا۔ اسکی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ اول یہ کہ خلائی مخلوق ایک طاقتور مخلوق ہوتی ہے۔ فوج بھی پاکستان میں سب سے طاقتور ادارہ ہے۔ دوم ، خلائی مخلوق غائب بھی ہوسکتی ہے اور جب چاہے سامنے بھی آجاتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ فوج نے کئی بار ملک میں مارشل لاء لگایا اورکئی بار سیاست میں غائبانہ کردار بھی ادا کیا ۔یہاں سوال یہ ہے کہ صرف میاں نوازشریف ہی کیوں شور مچارہے ہیں کہ انکا ایک خلائی مخلوق سے مقابلہ ہے۔باقی پارٹیوں کے سربراہ کیا اس خلائی مخلوق سے ڈرتے ہیں؟دراصل اس وقت پاکستان میں تین بڑی سیاسی پارٹیاں ہیں ۔ ن لیگ ، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی ۔ ان تینوں میں سے تحریک انصاف کو متحرک اور عوامی سیاست میں قدم رکھے ابھی صرف پانچ سال کا عرصہ ہوا ہے ۔ ان پانچ سالوں میں پاکستان میں ن لیگ کی حکومت تھی ۔ لہذا تحریک انصاف کااس خلائی مخلوق سے واسطہ نہیں پڑا۔ پیپلزپارٹی ایک پرانی اور عوامی جماعت ہے جسکا بانی ذوالفقار علی بھٹو اسی خلائی مخلوق کے ہاتھوں تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ بعدازاں خلائی مخلوق کے غائبانہ کردار کی بدولت نوازشریف کے ذریعے بینظر کی حکومت ختم کروائی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری نے پہلے اسی خلائی مخلوق کو للکار کر کہا کہ انکی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا مگر پھر بیرون ملک بھاگ گئے اور تب وطن واپس لوٹے جب درون خانہ اس خلائی مخلوق سے صلح ہوگئی۔ زرداری عقل مند نکلا ۔ اسے اپنے دو سابقہ لیڈروں کا حال معلوم تھا لہذا اس نے مفاہمت میں ہی عافیت جانی۔ لیکن نوازشریف کا ماضی ان دونوں پارٹیوں سے یکسر مختلف ہے۔ نوازشریف کی سیاست کا سنگ بنیاد اسی خلائی مخلوق نے رکھا۔اسی خلائی مخلوق کی کھلم کھلا اورکبھی غائبانہ مدد کے ساتھ نوازشریف پہلے پنجا ب کے وزیراعلی بنے اورپھر وزیراعظم پاکستان ۔ میاں نوازشریف پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سب سے خوش قسمت لیڈر ہیں جہیں تین دفعہ پاکستان کا وزیر اعظم بننے کا موقع ملا تاہم خلائی مخلوق سے چھیڑ چھاڑ کی بدولت دو بار پہلے ہی یہ اپنی وزارت عظمی کی سیٹ گنوابیٹھے ہیں ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نوازشریف اور خلائی مخلوق کا پرانا معاشقہ ہے۔ اگرچہ تیسری بار پانامہ کیس کی بدولت سپریم کورٹ آف پاکستان نے نااہل قرار دیا ہے لیکن اس کیس کے پیچھے بھی نوازشریف کو اسی خلائی مخلوق کا ہاتھ نظر آتا ہے۔ مزید یہ کہ آگے 2018ء کے عام انتخابات آرہے ہیں ۔ نوازشریف کو معلوم ہے کہ پاکستان کے عام انتخابات میں اس خلائی مخلوق کا اہم کردار ہوتا ہے لہذا ابھی سے شور مچانا شروع کردیا ہے کہ انکا مقابلہ ان عام انتخابات میں زرداری یا نیازی سے نہیں بلکہ خلائی مخلوق سے ہوگا۔ اس شوروغوغا کی بھی کئی ایک وجوہات ہیں۔ اول، ن لیگ حکمران پارٹی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ حکمران پارٹی دوبارہ انتخاب جیت کر اقتدار میں آجائے لہذا نوازشریف کو اپنی ہارصاف نظر آرہی ہے۔ دوم، حکمران پارٹی کے دو لیڈروں نوازشریف اور خواجہ آصف کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے تاحیات نااہل قرار دیا ہے۔جس سے حکمران پارٹی کو کافی دھچکا لگا ہے اور ن لیگ کی ساکھ کو کافی حد تک نقصان پہنچا ہے۔ سوم، خادم اعلی پنجاب شہباز شریف کو ن لیگ کا صدر منتخب کرلیا گیا ہے مگر ان کی جان بھی نیب اور ماڈل ٹاؤن سانحہ کے شکنجے میں کسی بھی وقت جکڑی جا سکتی ہے۔ لہذا اگر ن لیگ اگلے الیکشن میں اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوبھی جاتی ہے تو پھر بھی خطرہ ہر وقت سروں پر منڈلاتا رہے گا۔ چہارم، نوازشریف کی نااہلیت کے بعد ن لیگ میں دراڑیں پڑچکی ہیں۔ن لیگ کی بجائے اب ش لیگ کی افواہیں بھی گردش میں ہیں۔ تاہم نوازشریف کی خواہش ہے کہ اگر وہ خود چوتھی بار وزیراعظم نہیں بن سکتے تو شہباز شریفک کی بجائے انکی بیٹی مریم کو وزیراعظم بنوایا جائے۔ لیکن مریم نواز کو بھی نوازشریف کیطرح احتساب عدالتوں میں کئی کیسز کا سامنا ہے۔ جسطرح چاروں طرف سے محصور بلی شیر کے منہ پر جھپٹی ہے کچھ ایسی ہی صورتحال نوازشریف کو درپیش ہے۔ نوازشریف جو کبھی پاکستان کی سیاسی تاریخ کا خوش قسمت ترین لیڈر تھا اب بدقسمت ترین لیڈر ہے۔ بظاہر نوازشریف اور اسکے خاندان کے لئے پاکستانی سیاست میں تمام رستے بند ہوچکے ہیں۔ اسی لئے نوازشریف ہاتھ پاؤں مار رہا ہے کہ کسی صورت اسکی پاکستانی سیاست میں واپسی ہوجائے۔ اسکے ماضی کے تجربات اس بات کے گواہ ہیں کہ صرف خلائی مخلوق ہی اسے سیاست میں واپسی کا راستہ دے سکتی ہے۔ لیکن یہاں بھی ایک مجبوری آڑے آرہی ہے کہ کھلم کھلا خلائی مخلوق سے مدد کی اپیل نہیں کی جاسکتی کیونکہ جمہوریت میں خلائی مخلوق سے مدد کی اپیل سزائے موت کے مترادف ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اندر کھاتے خلائی مخلوق سے رابطے ہورہے ہیں مگر عوام کو دکھانے کے لئے خلائی مخلوق کو للکارا جا رہاہے۔ اب یہ تو تاریخ ہی بتائے گی کہ خلائی مخلوق ایک بار پھر جیت جائے گی یا جمہوریت کا سورج طلوع ہوگا۔