فاٹا کاخیبر پختونخواہ میں انضمام
صوبہ خیبر پختونخواہ اور افغانستان کے درمیان ایک قبائلی پٹی کو فاٹا کہا جاتا ہے جس پر پچھلے ستر سالوں سے ایک کالا قانون ایف سی آر لاگو ہے جو کسی طور بھی انسانی قانون کہلانے کے لائق نہیں۔ اس قبائلی پٹی پر رہائش پذیر لوگوں کو سپریم کورٹ آف پاکستان تک رسائی تھی اور نہ ہی پشاور ہائی کورٹ تک بلکہ پولیٹیکل ایجنٹ کی طرف سے صادر کیا گیا فیصلہ ہی حتمی تصور کیا جاتا تھا۔ تاہم 24مئی کا دن فاٹا کے لوگوں کے لئے خوشیوں کی ایک نئی نوید لے کر آیا جب قومی اسمبلی میں فاٹا کا خیبرپختونخواہ میں انضمام کا بل گیارہ کے مقابلے میں 229ووٹوں کی بھاری اکثریت سے پاس ہوا۔ اور ان الفاظ کی اشاعت تک یہ بل سینٹ سے بھی بھاری اکثریت سے پاس ہوچکا ہوگا اور فاٹا خیبر پختونخواہ کا حصہ بن چکا ہوگا اور یوں فاٹاکے لوگ بھی نہ صرف عام پاکستانیوں کو میسر تمام آئینی و بنیادی حقوق حاصل کرپائیں گے بلکہ انکے لئے ترقی کی نئی راہیں بھی کھلیں گی۔لیکن کامیابی کا یہ سفر اتنا سہل نہیں تھا اس میں کئی طرح کی مشکلات آئیں ۔جہاں اپنوں نے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں تو وہیں غیروں نے مدد بھی فراہم کی۔ مثلاََمولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی نے شروع سے ہی اس انضمام کی مخالفت کی۔ فضل الرحمن کا مطالبہ تھا کہ فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرنے کی بجائے ایک نیا صوبہ بنایا جائے۔جبکہ محمود اچکزئی تو فاٹا کو پاکستان کا حصہ ہی نہیں سمجھتے ۔انکے بقول فاٹا افغانستان کا حصہ ہے۔ محمود اچکزئی کے تانے بانے کہاں جا ملتے ہیں یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔لہذا انہوں نے اس انضمام کی مخالفت ہی کرنی تھی ۔ لیکن فضل الرحمن کی مخالفت سمجھ سے بالا ترہے۔ مولانا صاحب انضمام کی بجائے ایک نیا صوبہ بنانے کے حق میں تھے ۔مولانا کا مطالبہ پورا کرنا فی الحال ممکن نہ تھا کیونکہ فاٹا کا علاقہ دہشت گردی سے شدید متاثرہ ہے۔ اور ابھی بھی فوج کئی جگہوں پر دہشت گردوں سے برسرپیکار ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشنز سے انفراسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے اگرچہ فوج نے بحالی کا کام تیزی سے جاری رکھا ہوا ہے مگر مکمل بحالی کے لئے ابھی وقت درکار ہے۔ دوم، مقامی حکومت کا انتظام و انصرام چلانے کے لئے وہاں منظم ادارے موجود نہیں۔ سوم، نئی وزارتوں، عدالتوں اور سول محکموں کے بنانے اور انکو چلانے کے لئے جتنا سرمایہ درکار ہوتا ہے وہ دستیاب نہیں۔ چہارم، دہائیوں سے دہشت گردی سے متاثرہ ہونے کی بدولت سرمایہ کار ابھی بھی وہاں جانے سے ڈرتا ہے۔ ایسی صورت میں فاٹا کو ایک نئے صوبہ کا رو پ دینا فاٹا کے لوگوں سے زیادتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تمام بڑی قومی و علاقائی سیاسی پارٹیوں خواہ وہ مسلم لیگ ن ہو، تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی ، اے این پی ، شیرپاؤ پارٹی ، جماعت اسلامی ،مسلم لیگ ق اور دیگر سیاسی جماعتوں نے فاٹاکے خیبرپختونخواہ میں انضمام کی حمایت کی۔ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے فاٹا کے لوگوں کی رائے معلوم کرنے کے لئے اپنے مشیر سرتاج عزیر کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے ڈیڑھ سال کے عرصہ میں فاٹا کے ہر طبقہ کے لوگوں کی رائے معلوم کرکے فاٹا اصلاحات پیش کیں۔ ان اصلاحات کا بل پچھلے سال دسمبر میں پارلیمنٹ میں پیش کیا جانا تھا مگر آخری لمحات میں مولانا فضل الرحمن کے مطالبے پر یہ بل کاز لسٹ سے نکال دیا گیا جس پر ارکان اسمبلی نے شدید احتجاج کیا اور اسمبلی سے واک آؤٹ کیا۔ اس سے قبل جماعت اسلامی نے فاٹا سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا اورحکومت کو باور کرایا کہ اگر انکے انضمام کا مطالبہ نہیں مانا جاتا تو پھر جماعت اسلامی پورے پاکستان سے لوگوں کو اسلام آباد اکٹھا کرے گی۔ اورلوگوں کے سمندر کے آگے حکومت ٹھہر نہیں پائے گی۔ بعدازاں تحریک انصاف نے بھی لانگ مارچ کی دھمکی دی۔ قومی اسمبلی میں بل پر اتفاق رائے نہ ہونے کی بدولت بل کو اسمبلی میں پیش نہ کیا گیا اور اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔ تاہم اپریل 2018ء میں جب صدر پاکستان کے دستخطوں سے سپریم کورٹ آف پاکستان اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھا دیا گیا تو فاٹا کے لوگوں کو روشنی کی ایک کرن نظر آئی ۔لہذا نہوں نے زوروشور سے فاٹا انضمام کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔یوں کامیابی کا یہ سفر مئی 2018ء میں مکمل ہوا۔ فاٹا کے انضمام کا کریڈٹ کسی ایک سیاسی پارٹی یا طبقہ ء فکر کو نہیں دیا جاسکتا ۔ ہم نے دیکھا کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد یہ وہ واحد موقع تھا جب سوائے چند گنے چنے لوگوں کے تمام قوم ایک ہی پیج پر نظر آئی۔ وکیل ، صحافی، طلباوطالبات، ڈاکٹرز، سیاسی ورکرز، سیاستدان حتی کہ فوج نے بھی فاٹا کے خبیر پختونخواہ میں انضمام کے مطالبے کی حمایت کی۔ صد شکر کہ اتنا بڑا فیصلہ ایک بھی گولی یاڈنڈا چلائے بغیر باہمی اتفاق رائے سے طے پاگیا ہے۔ دعا ہے کہ آئندہ بھی اسطرح کے تمام فیصلے گالی گلوچ، ہڑتالوں، سرکاری و نجی املاک کونقصان پہنچائے بغیر ہی طے پائیں تاکہ پاکستان محبت اور امن آشتی کا گہوارہ بن جائے ۔ آمین۔