Saturday, January 19, 2019

کیا تحریک انصاف کی حکومت گرِ سکتی ہے؟

کیا تحریک انصاف کی حکومت گرِ سکتی ہے؟
تین بار وزیراعظم منتخب ہونے والے واحد سیاسی لیڈر میاں نوازشریف جیل میں ہیں اور تاحیات نااہل ہوچکے ہیں۔ ن لیگ کے صدر شہباز شریف عرف خادم اعلیٰ نیب کے ریڈار پر ہیں جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری جعلی اکاؤنٹس کیس میں ایگزٹ کنٹرول لسٹ پرہیں اور شنید ہے کہ جلد ہی گرفتار کرلئے جائیں گے۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے سربراہان کو کرپشن اور منی لانڈرنگ کے مقدمات کا سامنا ہے۔ یہ وہ مقدمات ہیں جو دونوں سیاسی پارٹیوں کے سربراہان نے اپنے اپنے ادوار میں ایک دوسرے کے خلاف درج کروائے۔ لیکن ان مقدمات کا فائدہ نئی حکومت یعنی تحریک انصاف کو ہورہا ہے کیونکہ اپوزیشن رہنماؤں کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کے لئے انہیں کوئی زیادہ تگ و دو نہیں کرنا پڑی۔ اگرچہ شریف اور زرداری خاندان کے خلاف زیادہ تر مقدمات کی پیروی نیب اور ایف آئی اے کررہی ہے لیکن اسکا کریڈٹ حکومت لے رہی ہے۔ 
چونکہ عمران خان وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد سے اب تک ایک ہی راگ الاپتے آرہے ہیں کہ میں چوروں اور ڈاکوؤں کو نہیں چھوڑوں گا اوران سب کو جیلوں میں ڈالوں گا۔ اس لئے ان اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف کوئی حکم خواہ سپریم کورٹ جاری کرے یا نیب اور ایف آئی اے کوئی ایکشن لے ، اپوزیشن یہی سمجھ رہی ہے کہ یہ سب حکومتی ایما پر کیا جارہا ہے۔ اس وقت جو ملکی سیاسی ماحول اتنا گرم ہوچکا ہے اسکی زیادہ تر ذمہ داری حکومتی وزراء اور خود وزیراعظم پر عائد ہوتی ہے۔ کسی بھی نئی نویلی حکومت کو اقتدار میں آنے کے فوری بعد ملکی سیاسی حالات میں ٹھہراؤ لانا ضروری ہوتا ہے تاکہ سرمایہ کاری کو فروغ ملے اور روزگار کے نئے نئے مواقع پیدا ہوں مگر پی ٹی آئی کی حکومت نے آتے ہی اپنے خلاف کئی محاظ کھول لئے ہیں۔ 
کرپشن کے خلاف کھلم کھلا اعلان جنگ سے حکومت نے نہ صرف سیاستدانوں کو الرٹ کردیا ہے بلکہ بیوروکریٹس کوبھی چوکنا کردیا ۔ وہ بیوروکریٹس جو کبھی بلا جھجک بڑے بڑے کام کرجاتے تھے اب جیل جانے کے ڈر سے کسی بھی کام کو کرنے سے کترارہے ہیں اور دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ لہذا حکومت سٹینڈ بائی موڈ پر کھڑی نظر آرہی ہے۔ وزراء کی صرف زبانیں ہل رہی ہیں لیکن عملی طور پر کوئی کام ہوتا نظر نہیں آرہا۔ جبکہ دوسری طرف مہنگائی ہے کہ بڑھتی جارہی ہے جس سے عوام میں تشویش کی لہر دوڑ رہی ہے۔ 
حکومتی خزانہ چونکہ خالی ہے اور وزیراعظم سابقہ وزراء کی طرح ذاتی تشہیر کے عادی نہیں لہذا حکومتی اشتہاروں کی بندش ہے جس سے میڈیا کی نشوونما رک گئی ہے اور زیادہ تر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیاکے اداروں کو جان کے لالے پڑگئے ہیں۔ پیٹ خالی ہو تو کوئی سب اچھا ہے کی گردان نہیں گاتا۔ لہذا میڈیا بھی اب نئی حکومت پر زور شور سے چڑھ دوڑاہے اور ہر چھوٹی بڑی خامی کو بے نقاب کررہا ہے۔ 
اب صورتحال یہ ہے کہ ماسوائے فوج اور عدلیہ کے ملک کے اندر کوئی تیسری قوت تحریک انصاف کی حکومت کو سپورٹ نہیں کررہی ۔ اس پر مستزاد یہ کہ حکومتی وزراء کی زبانیں ایسی آگ پھینک رہی ہیں کہ جلتی پر تیل کا کام کررہی ہیں۔ حال ہی میں وزیراطلاعات نے ایسی بیان بازی کی ہے کہ سپیکر پنجاب اسمبلی کے بیٹے مونس الہی نے حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دے ڈالی ہے۔ بلوچستان میں باپ (بلوچستان عوامی پارٹی ) کے سربراہ اختر مینگل نہ صرف حکومت سے ناراض ہیں بلکہ منگل کے روز قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے چیمبر میں ہونے والی اپوزیشن رہنماؤں کے اجلاس میں بھی شرکت کی ہے۔ یہ واحد سیاسی لیڈر ہیں جو حکومتی اتحادی ہونے کے باوجود اپوزیشن کے اجلاس میں شرکت کررہے ہیں۔ آصف زرداری اور شہباز شریف گلے مل چکے ہیں اور نئے میثاقِ جمہوریت کے عہدوپیمان بھی کرچکے ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمن پھر سے ایکٹو ہوچکے ہیں۔ 
15جنوری کو ہونے والی اپوزیشن رہنماؤں کی اس میٹنگ کی پسِ پردہ حقیقت یہ کہ حکومت پر دباؤ ڈالا جائے اور ایک نیا این آر اولیا جائے بصورت دیگر حکومت گرانے کی کوششیں کی جائیں۔ سب سے پہلی کوشش جو کی جائے گی وہ سینٹ چیئرمین کی تبدیلی ہے جہاں اپوزیشن کو حکومت پر برتری حاصل ہے۔ اسکا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ چونکہ سینٹ کا چیئرمین اپوزیشن کا ہوگا لہذا حکومت کو قانون سازی میں دشواری پیش آئے گی اوراسے سینٹ سے بل پاس کروانے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اپوزیشن دوسرا قدم جو اٹھائے گی وہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے لئے اسکے اتحادیوں کو توڑنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس سلسلے میں اپوزیشن پہلی سیڑھی چڑھتی نظر آرہی ہے وہ یہ کہ حکومتی اتحادی باپ کے رہنما اپوزیشن کی صفوں میں کھڑے نظر آرہے ہیں۔ ایسے ہی دوسری حکومتی اتحادی پارٹیوں کو توڑنے کی کوششیں کی جائیں گی لیکن اپوزیشن کو اس میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔ اسکی وجہ یہ ہے حکومتی اتحادی جماعتوں کے سربراہان کو بخوبی علم ہے کہ اس وقت انکو جو حکومتی وزارتیں ملی ہوئی ہیں اگر وہ اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہیں تو ایسی اہم وزارتوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے کیونکہ اپوزیشن جماعتوں میں اہم عہدے مانگنے والے لوگ بہت زیادہ ہونگے جبکہ وزارتیں کم ہونگی۔ لہذا حکومتی اتحادی ہاتھ والی ایک کو چھوڑ کر جھاڑی والی دو کے پیچھے نہیں بھاگیں گے۔ 
علاوہ ازیں، تحریک انصاف کی حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جتنی انڈرسٹینڈنگ اس وقت ہے پاکستان کی تاریخ میں ایسا موقع پہلے کبھی نہیں آیا۔لہذا ملٹری اسٹیبلشمنٹ کبھی نہیں چاہے گی کہ تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہو۔ مزید یہ کہ حکومت اور فوج ایک پیچ پر ہیں اور طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے دباؤ ڈال رہے ہیں جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہورہے ہیں لہذا انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ بھی اس حق میں نہیں ہوگی کہ تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہو۔چین ، سعودی عرب، قطر اور ترکی کے دوروں کے دوران وزیراعظم کی آؤبھگت ظاہر کرتی ہے کہ یہ ممالک بھی عمران خان کی حکومت کو گرانے والے اقدام کی مخالفت کریں گے لہذا یہ بالکل واضح ہے کہ اس وقت تحریکِ انصاف کی حکومت کو گرایا نہیں جاسکتا۔ 

لاہور کی آلودگی اور تدارک

لاہور کی آلودگی اور تدارک

جس طرح مغل بادشاہوں کو عالی شان عمارتوں کی تعمیر کا یارہ تھا، شریف فیملی بالخصوص خادمِ اعلی کے سر پر میٹرو اور اورنج ٹرین کے ساتھ ساتھ لاہور شہر میں جگہ جگہ فلائی اوور اور انڈرپاسز بنوانے کا جنون سوار تھا۔نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج لاہورکا شمار دنیا بھر کے دس آلودہ ترین شہروں میں ہونے لگا ہے۔ بے جا درختوں کو کاٹ کر سڑکیں اور پل تعمیر کیے گئے اور ظلم در ظلم یہ کہ اکثر ایک ہی سڑک کو باربار تعمیر کروایا گیا۔سب سے بڑی زیادتی جو خادمِ اعلی نے لاہوریوں کے ساتھ کی وہ میٹرو بس اور اورنج ٹرین منصوبے ہیں۔ ا ن منصوبوں نے لاہور کو نہ صرف دو حصوں میں تقیسم کردیا ہے بلکہ کنکریٹ کی ایسی دیواریں کھڑی کردی ہیں کہ ان سے سر پھوڑنے کو جی چاہتا ہے۔ پہلے شاہدرہ سے گجومتہ تک ستائیس کلومیٹر لمبے ٹریک کو مکمل کرنے کے لئے کئی سال تک لاہور یوں کو زبردستی دھول اور مٹی کھلائی گئی اور جب یہ پراجیکٹ مکمل ہوا تو خادم اعلی کے عالی شان دماغ نے لاہوریوں کے لئے مزید دھول اور مٹی کا سامان اورنج ٹرین پراجیکٹ شروع کرکے مہیا کردیا۔ یہ پراجیکٹ 2015ء میں شروع ہوا لیکن ن لیگ کا دور حکومت ختم ہونے کے باوجود ابھی بھی نامکمل ہے اور نئی حکومت بھی اس پراجیکٹ کے حق میں نہ ہے تو فی الحال یہ پراجیکٹ مکمل ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ان دونوں بڑے منصوبوں کا برا اثر یہ پڑا ہے کہ جہاں جہاں پر اس منصوبے کا وجود ہے وہاں پر اکثر ٹریفک کا رش نظر آتاہے۔ کیا عالی دماغ پائے ہیں ہمارے منصوبہ سازوں نے کہ اپنے کمیشن کی خاطر ایسی روڈ انجینرنگ کی ہے کہ لاہوریوں کو دوہرے مصائب کا سامنا ہے۔ ایک تو ٹریفک جام اور دوسرا ٹریفک جام ہونے کی صورت میں گاڑیوں سے بے پناہ دھوئیں کا اخراج جس سے لوگوں کے نہ صرف نظام تنفس تباہ ہورہے بلکہ نت نئی بیماریاں بھی جنم لے رہی ہیں۔ کجا یہ کہ خادم اعلی لاہورکو درختوں اور پھولوں کا شہر بناتے انہوں نے اسے کنکریٹ کے قبرستان میں بدل دیا ۔ لیکن ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا۔ نئی حکومت کو چاہیے کہ لاہور میں میٹرو بسوں اور اورنج ٹرینوں جیسے کسی اور پروجیکٹ پر مکمل پابندی عائد کردی جائے۔ لاہور سے باہر جانب رائے ونڈ وسیع علاقہ دستیاب ہے وہاں اسلام آباد جیسا ایک منی لاہور بسانے کا منصوبہ تشکیل دیا جائے لیکن اسے بسانے سے قبل مکمل منصوبہ بندی کی جائے۔ مثلاََ لاہور شہر کے اہم سرکاری ادارہ جات مثلاََ سول سکریٹریٹ، اہم عدالتیں اور بڑی سبزی منڈیوں کو منی لاہور میں منتقل کردیا جائے تاکہ ٹریفک کے مسائل میں کمی آئے اور لاہوریوں کو دھویں کی بیماریوں سے نجات ملے۔ دوم، منی لاہور میں درختوں کی بہتات ہو، سوم، روڈ انجینرنگ بہترین ہو ، سڑکیں کشادہ اور سروس روڈ ز دستیاب ہوں۔ چہارم ، ایک مارکیٹ سے دوسری مارکیٹ کا مناسب فاصلہ ہو۔پنجم، منی لاہور میں چنگ چی اور ٹوسڑوک رکشوں پر مکمل پابندی ہو۔ششم ، نئے منی لاہور اور ترجیحاََ پنجاب کے باقی بڑے شہروں میں روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ پنجاب بھر سے لاہور منتقل ہونے والے بے روزگار خاندانوں کی آمد کا سلسلہ تھم سکے جس سے لاہور کی آبادی کو نہ صرف کنٹرول کیا جاسکے گا بلکہ لاہور میں پہلے سے بسنے والے لوگوں کو صحت و تعلیم کی بہترین سہولتیں مہیا کرنے میں آسانی ہوگی۔اسی طرح اور بھی بہت سے طریقے ہیں جس سے لاہور شہر کی آلودگی کو کم کرنے میں آسانی ہوگی لیکن ان سب کاموں کے لئے نیت کا ٹھیک ہونا شرط ہے ۔ 

Sunday, January 6, 2019

U Turn about Basant

کیا بسنت کے معاملے میں بھی یوٹرن لینا پڑے گا ؟

حکومت پنجاب نے فروری کے دوسرے ہفتے میں بسنت منانے کا اعلان کرکے ایک اور مصیبت اپنے سر ڈال لی ہے۔ پچھلے بارہ سالوں سے عائد اس پابندی کو انتہائی عجلت میں اٹھائے جانے کو بعض حلقے احمقانہ فعل گردان رہے ہیں۔آئیے جانچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ لاہوریے اس بار بسنت منا پائیں گے یا حکومت پنجاب کو ایک اور یوٹرن لینا پڑے گا۔

تاریخ پر نظر ڈالیں تو بسنت کے تہوار کا باقاعدہ آغازہندو راجہ رنجیت سنگھ کے دور سے ہوا۔پتنگ اُڑانا اس تہوار کا سب سے اہم جزو ٹھہرایا گیا۔ امرتسر ، لاہور اور قصور اس تہوار کے روایتی علاقے گردانے جاتے ہیں تاہم لاہور کو اس سلسلہ میں مرکزی حثیت حاصل ہے۔ یہ تہوارجنوری کے اختتام یا فروری کے آغاز پر منایا جاتا ہے۔ اس تہوارمیں لوگ گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر پتنگ بازی کرتے اور ایک دوسرے سے پیچ لڑاتے ہیں۔ دعوتیں ہوتی ہیں، ڈھول بجتے ہیں، گھروں کی چھتوں پر ساؤنڈ سسٹم لگا کر ناچ گانوں سے بھی دل بہلائے جاتے ہیں۔ ایک دہائی قبل تک یہ تہوار لاہور میں اتنا مقبول تھا کہ نہ صرف پاکستان کے ہر حصے سے لوگ لاہور آتے بلکہ بیرون ملک سے بھی ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس تہوار میں شرکت کیلئے لاہور تشریف لاتے تھے۔
لیکن پھر ناجانے کس کی نظر لگ گئی کہ لوگوں کے چہروں پر خوشیاں لانے والا یہ تہوار دیکھتے ہی دیکھتے خونی کھیل میں بدل گیا۔جوکھیل دلوں کو جوڑتا تھا ، مختلف گھروں میں صف ماتم بچھانے لگ پڑا۔ کہتے ہیں لالچ انسان کو اندھا کردیتاہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے پتنگ باز بہتر سے بہترین دھاتی ڈور کی فرمائش کرنے لگے۔ دھاتی ڈور بنانے والوں کو جب منہ مانگی قمیت ملی تو انہوں نے نتائج کی پرواہ کیے بغیر کانچ کا شیشہ اور خطرناک کیمیکل لگی ڈور بنا کر دینی شروع کردی۔ جس سے پتنگ بازوں کو تو فائدہ ہوا کہ انکے مخالفین کی ڈور ایک جھٹکے میں کٹ جانے لگی مگر اسکا نقصان یہ ہوا کہ کیمیکل لگی ڈور جسکی گردن پر پھر جاتی وہ موت کی آغوش میں چلا جاتا یا ہسپتال پہنچ جاتا۔ جب اس دھاتی ڈور کی مانگ اور استعمال بڑھا تو اموات بھی زیادہ ہونا شروع ہوگئیں ۔لہذا ردعمل میں معاشرتی آوازوں نے زور پکڑا تو حکومت کو چاروناچار بسنت کے تہوار پر پابندی عائد کرنا پڑی۔
مسلم لیگ ن کے سابقہ دونوں ادوار میں اس تہوار پر پابندی برقرار رہی ۔ لیکن تحریک انصاف کی حکومت نے آتے ہی اس تہوار کے منانے کا اعلان کر دیا ہے یہ دیکھے بغیر کہ اس تہوار سے پابند ی اٹھانا ممکن ہے بھی یا نہیں۔ انتہائی عجلت میں کیا گیا یہ فیصلہ یقیناًتحریک انصاف کی حکومت کو واپس لینا پڑے گا ۔ اسکی کئی وجوہات ہیں۔ اول، راہگیروں، سائیکل سواروں اور موٹرسائیکل سواروں کے گردنوں پر قاتل ڈور پھرنے سے بے گناہ شہریوں کی اموات واقع ہوتی ہیں۔ دوم، قاتل ڈور پر پابندی لگانا ممکن نہیں۔ کیونکہ اس صنعت سے وابستہ لوگوں کو جب منہ مانگی قیمت ملتی ہے تو وہ ہرطرح کی ڈور تیار کرنے لگتے ہیں جبکہ دوسری طرف پنجاب پولیس کے پاس ایسا کوئی نظا م نہیں کہ قاتل دھاتی ڈور بنانے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرسکے۔ بالفرض اگر پنجاب پولیس لاہور میں قاتل ڈور بنانے والوں کو قابو کر لیتی تو منافع خور اس قاتل ڈور کی تیاری لاہو رسے باہر شروع کر دیں گے۔ جسے قابو میں لانا پنجاب پولیس کے بس میں نہ ہوگا۔ سوم، بسنت کے تہوار میں پتنگیں اڑاتے ہوئے اور کٹی پتنگوں کو پکڑتے ہوئے اکثر بچے گھروں کی چھتوں سے گر کر جاں بحق ہوجاتے ہیں یا پتنگوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے کسی گاڑی سے ٹکرا کر اپنے خالق حقیقی سے جاملتے ہیں۔ ایسے واقعات بھی لوگوں کو بسنت کے خلاف آواز اٹھانے پر اکساتے ہیں۔ چہارم، پتنگ بازی کے دوران اکثر لوگ گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر ہوائی فائرنگ کرتے ہیں جس سے کئی لوگ اندھی گولیاں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پنجم، لاہور شہر میں اس وقت لیسکو کے دو سو سے زائد گرڈ اسٹیشنز اور پندرہ سو سے زائد فیڈرز ہیں۔ دھاتی ڈور کی بدولت ان فیڈرز سے بجلی کی باربار ٹرپنگ ہوگی جس سے بجلی کی ترسیل کا نظام انتہائی متاثر ہوگا اورنہ صرف لیسکو کو لاکھوں کا نقصان ہوگا بلکہ کاروباری حضرات کو بھی کروڑوں کے ریونیو لاسسز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ششم۔ بجلی کی بار بار ٹرپنگ سے عام شہریوں کی الیکٹرانک اشیاء بھی جل جائیں گی۔ ہفتم، شرعی اعتبار سے بھی بسنت کا تہوار کوئی اسلامی تہوار نہیں لہذا اس تہوا ر کے دوبارہ آغاز سے ہماری مذہبی و سیاسی جماعتوں کو حکومت کے خلاف تنقید کے نشتر چلانے کا موقع ملے گا۔
درج بالا سطور سے عیاں ہے کہ بسنت کے تہوار پر عائد پابند ی اٹھانا کسی طور بھی دانشمندانہ اقدام نہیں۔ ماضی میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے بھی کئی بار یہ پابندی اٹھانے کا عندیہ دیا لیکن عوام الناس کے جانی و مالی نقصان کی بدولت انہیں یہ فیصلے واپس لینے پڑے۔ حالانکہ ماضی میں درج بالا نقصانا ت سے بچاؤ کی کئی تدبیریں بھی کئی گئیں مثلا لیسکو کی تنصیبات کو دھاتی ڈور کے ٹکراؤ سے بچانے کے لئے گرڈ اسٹیشنوں پر جال بھی لگوائے گئے مگر اسکے باوجود بھی حکومت کو شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے میں کوئی خطر خواہ کامیابی نہیں ملی ۔ لہذا چاروناچار سابقہ صوبائی حکومتوں کو اس تہوار پر پابندی برقرار رکھنی پڑی۔
اگرچہ پچھلے بارہ سالوں سے اس تہوار پر پابندی عائد ہے لیکن اسکے باجود بھی رواں سال دو افراد جاں بحق اور انیس افراد زخمی ہوئے۔ پتنگ بازی ایکٹ کے تحت رواں سال دو ہزار پانچ سو افراد کے خلاف مقدمات کا اندارج ہوا جبکہ تقریبا چھبیس سو افراد ایسے تھے جو پتنگ اڑانے اور اسکا سامان بیچنے کے جرم میں گرفتار ہوئے۔ یہ وہ اقدامات ہیں جو خادم اعلی کی حکومت نے عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لئے اٹھائے۔پچھلے دس سال جو حکومت پنجاب میں براجمان رہی وہ اس تہوار پر عائد پابند ی نہیں اٹھا پائی تو تحریک انصاف کی نومولود اور ناتجربہ کار حکومت اس پابندی کو کیسے ہٹاپائے گی۔ نہ صرف اپوزیشن جماعتیں اس تہوار سے پابندی ہٹانے کی مخالفت کررہی ہیں بلکہ بعض حلقوں نے توحکومت پنجاب کے اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے بھی رجوع کر لیا ہے۔ مزید یہ کہ پنجاب کی بیوروکریسی بھی اس کے خلاف آواز بلند کررہی ہے۔سب سے زیادہ پنجاب پولیس اس پابندی کو ہٹانے کی مخالفت کرے گی کیونکہ پابندی ہٹائے جانیکی صورت میں جب اموات واقع ہونگی تو سب سے زیادہ انگلیاں پنجاب پولیس کی نااہلی پر ہی اٹھیں گی ۔ پنجاب پولیس اس پابندی کو ہٹانے کی حمایت کرکے اپنے پاؤ ں پر کلہاڑی مارنے کی حماقت ہرگز نہیں کرے گی۔
ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ حکومت پنجاب نے انتہائی عجلت میں بسنت کا تہوار منانے کا اعلان کرکے انتہائی غیر دانشمندانہ اقدام اٹھایا ہے۔ اور اگر یہ اعلان نہیں ہے بلکہ صرف کمیٹی کی تشکیل ہے تو اتنا واویلا کرنا بھی انتہائی حماقت ہے۔ یہ اعلان کمیٹی کی سفارشات آنے کے بعد بھی کیا جاسکتا تھا۔ خیرجو بھی ، تحریک انصاف کی حکومت کو بسنت کے معاملے میں بھی یوٹرن لینا پڑے گا۔

Its Pakistan's turn to ask for do more.

اب ڈومورکا مطالبہ پاکستان کرے

نو گیارہ سے پہلے افغانستا ن میں طالبان کا سورج پوری آب وتاب سے چمک رہا تھااور اسکے زیادہ تر حصہ پر طالبان کی اجارہ داری تھی لیکن یہ حکومت زیادہ دیر اپنا اثرورسوخ قائم نہ رکھ سکی کیونکہ نوگیارہ کے سانحہ کے بعد امریکہ اپنے اکیالیس اتحادیوں کے ہمراہ پورے جاہ وجلال سے افغانستان پر حملہ آور ہوااور افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ چنگھاڑتے ہاتھی کی مانند جب امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا تو ساری دنیا سہمی ہوئی تھی ماسوائے افغانستان کے اس چھوٹے سے مذہبی ٹولے کے جوکہ بضد تھا کہ اسامہ بن لادن انکا مہمان ہے اور وہ اپنے مہمان کو کسی صورت بھی امریکہ کے حوالے نہیں کریں گے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس وقت روس اور چین سمیت کسی ملک کو بھی یہ جرات نہ ہوئی کہ امریکہ کی مخالفت کرتا لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی۔ دراصل افغانستا ن کو بڑی طاقتوں کا قبرستان کہا جاتا ہے کیونکہ برطانیہ اور روس جیسی بڑی طاقتیں اس ملک پر حملہ آور ہو کر خاک چاٹ چکی ہیں۔ لہذا جب امریکہ بدمست ہاتھی کی طرح اس کی طرف لپکا تو روس اور چین جیسی بڑی طاقتوں نے امریکہ کی ہاں میں ہاں ملائی کیونکہ انکو معلوم تھا کہ امریکہ کو اگر کمزور کرنا ہے تو اسکی صرف ایک ہی صورت ہے کہ اسے افغانستان میں داخل ہونے دیا جائے۔ دوسری طرف امریکہ کے افغانستان میں داخل ہونے کے کچھ اپنے مفادات تھے مثلاََ چین اور روس پر نظر رکھنے کے لئے اس خطے میں ہمہ وقت موجودگی، افغانستان کے معدنی دخائر ، پوست کے کاروبار سے فائدہ اٹھانا، چین کے مقابلے میں بھارت کو کھڑا کرنے اور پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے بھارت کوافغانستا ن میں ہرممکن مدد فراہم کرناوغیرہ شامل ہے۔
افغانستان میں داخل ہوتے ہوئے امریکہ کی حالت دیدنی تھی کیونکہ وہ زخمی ہاتھی کی طرح چنگھاڑ رہا تھااور اپنے راستے میں آنے والی ہر طاقت کو نیست و نابود کرتاجارہا تھا۔ لیکن طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد امریکی افواج اپنے اکیالیس اتحادی ممالک کے ساتھ افغانستان کا چپہ چپہ چھانتے رہے مگر انہیں اسامہ بن لادن کہیں بھی میسر نہ آیا لہذا تقریبا ایک دہائی بعد امریکہ نے فیس سیونگ کے لئے نوگیارہ کی طرح ایک اور ڈرامہ رچایا اور پاکستان کے علاقے ایبٹ آباد میں راتوں رات ایک آپریشن کرکے اسامہ بن لادن کو قتل کرکے اسکی لاش سمند ر بردکردی۔ جس طرح نوگیارہ سانحہ کی سچائی پر آج بھی انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں اسی طرح ایبٹ آباد آپریشن بھی ایک ڈرامہ سمجھا جاتا ہے۔
امریکہ جن مقاصد کے حصول کے لئے افغانستان میں داخل ہوا تھا آج واضح ہے کہ وہ ان کوششوں میں مکمل ناکام رہا ہے ۔ مثلاََ دو بڑے مقاصد بھارت کو چین کے مقابلے میں کھڑا کرنا اور پاکستان اور پاک فوج کو کمزور کرنا تھے مگر آج چین بھارت تو کیا امریکہ سے بھی آگے نکل رہا ہے جبکہ پاکستان اور پاکستانی افواج نے مسلط کی گئی دہشت گردی کی جنگ کو جوانمردی سے لڑتے ہوئے اس سے چھٹکارا حاصل کرلیا ہے۔ آج پاکستان کی عوام ، حکومت اور افواج دہشت گردوں کے خلاف ایک پیج پر ہیں۔ لیکن دوسری طرف امریکہ پچھلے سترہ سالوں سے افغانستان میں طالبان سے لڑتے لڑتے تھک چکا ہے۔ پہلے پاکستان پر الزام عائد کیا گیا کہ پاکستان دہشت گردوں کی مدد کررہا ہے کیونکہ طالبان مجاہدین پاکستان کے قبائلی علاقوں میں روپوش ہیں۔ چاروناچار پاکستان کو اپنے قبائل علاقوں میں فوجی آپریشن کرنے پڑے جسکی بدولت پاکستانی عوام اور افواج نے بے پناہ جانی و مالی نقصانات اٹھائے۔ لیکن اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پاکستان اس امتحان میں کامیاب و کامران ٹھہرا ۔ دنیا کی تاریخ میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی ہے۔تاہم امریکہ پھر بھی بضد ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کو مدد فراہم کررہا ہے۔حالیہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جب اقتدار میں آیا تو اس نے آتے ہیں پاکستان کی مالی امداد بند کر دی اور ڈومور کا مطالبہ کیا۔اس سال کے پہلے سورج کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی ٹویٹ بھی پاکستان کے خلاف تھی جس میں پاکستان پر الزام عائد کیا گیا کہ امریکہ نے پچھلے پندرہ سالوں میں پاکستان کو 33ارب ڈالر دئیے ہیں مگر بدلے میں پاکستان کی طرف سے دھوکہ ہی ملا۔ اس ٹویٹ کی بدولت پاکستان کی پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی۔
لیکن حالات تب بدلے جب عمران خان برسراقتدار آیا۔ نومبر میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی تو جواباََ عمران خان نے کئی ٹویٹس کیں اور امریکہ کو باور کروایا کہ پاکستان نے دہشت گردی کی اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔یہ ٹویٹس اتنی مدلل اور حقائق پر مبنی تھیں کہ پینٹاگون کے ترجمان کو بھی وضاحت کرنی پڑی ۔ عمران خان کے دوٹوک موقف کو نہ صرف اپوزیشن پارٹیوں کے رہنماؤں نے سراہا بلکہ دنیا بھر کے اخبارات نے نمایاں جگہ پر چھاپا ۔یہ پہلا موقع تھا کہ کسی پاکستانی وزیراعظم کی طرف سے امریکہ کو اس طرح دوٹوک جواب دیا گیا ہو۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے باقاعدہ خط لکھ کر وزیراعظم پاکستان سے مدد کی اپیل کی ہے کہ افغانستان کے طالبان کو امریکہ کے ساتھ مزاکرات کی میز پر لایا جائے۔یہ بھی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کسی امریکی صدر نے باقاعدہ خط لکھ کر پاکستانی وزیراعظم سے مدد کی اپیل کی ہو وگرنہ تو وہاں سے صرف حکم آتے تھے اور ادھر سے جی سر کی صدائیں بلند ہوتی تھیں۔
ان حالات سے واضح ہے کہ حالات یکسر بدل چکے ہیں۔ افغانستان کی سترہ سالہ جنگ نے بدمست امریکی ہاتھی کے ہوش ٹھکانے لگا دئیے ہیں۔ اس وقت افغانستا ن کے تقریبا ستر فیصد حصے پر عملاََ طالبان کی اجارہ داری ہے اوردنیا کی سپر پاور اب انکے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نظر آتی ہے۔ امریکی اب اس جنگ سے نہ صرف اکتا چکے ہیں بلکہ تھک بھی چکے ہیں۔ اس جنگ نے ان کا کچومر نکال دیا ہے۔ اب وہ اس سے چھٹکارا چاہتے ہیں لیکن وہ تو کمبل کو چھوڑ رہے ہیں مگر کمبل انکو چھوڑ نہیں رہا۔ اب نگلے بات بنتی ہے اور نہ ہی اگلنے سے جان کی خلاصی ہوتی ہے۔ ساری دنیا پر عیاں ہے کہ افغانستان میں امریکی سورج غروب ہورہا ہے۔ لہذا چاروناچار امریکہ ہاتھ پاؤں مار رہا ہے کہ انکے سپر پاور ہونے کا بھرم رہ جائے۔ امریکہ برطانیہ اور روس کی طرح افغانستان سے ذلیل و خوا ر ہوکرنہیں نکلنا چاہتا۔ چونکہ پاکستان میں اب حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں اسی لئے امریکی صدر کو وزیراعظم عمران خان کو باقاعدہ خط لکھ کر مدد کی اپیل کرنے کی ضرورت پیش آئی۔دوسری طرف پاکستان بھی چاہتا ہے کہ اس جنگ سے چھٹکارا ملے لہذا پاکستان بھی طالبان کو مزاکرات کی میز پر لانے میں بھرپور کردار اداکرے گا۔
لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہاتھ آئے ایسے نادر موقع کو ضائع نہ ہونے دیا جائے۔امریکہ نے ہمیشہ پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کیا ہے۔ اب ڈومور کا مطالبہ پاکستان کی طرف سے ہونا چاہیے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان نے بے پناہ جانی و مالی نقصان اٹھایا ہے جسکے مداوے کے لئے امریکہ سے چند شرائط پہلے سے طے کرلی جائیں جن میں سے دو شرائط پاکستان کے لئے امریکی امداد کی بحالی ہے اور دہشت گردی کے خلاف ہونے والے پاکستانی نقصانات کا ازالہ ہے کیونکہ امریکہ اس وقت مصیبت میں ہے جبکہ پاکستان کو پیسوں کی ضرورت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو ہمیشہ استعمال کرکے پھینکا ہے ۔ اس بار پاکستان کی باری ہے۔

From Shimla Treaty to Kartarpur Corridor

شملہ معاہدے سے کرتارپور راہداری تک

پاکستان اور بھارت کی باہمی تاریخ میں صرف چندمواقع ایسے آئے جب دونوں ممالک نے مل بیٹھ کر مسائل کو حل کرنے کا فیصلہ کیا۔پہلی دفعہ دونوں ممالک کوباضابطہ مزاکرات کی ضرورت تب پیش آئی جب 1971ء کی جنگ کے نتیجے میں پاکستان دو ٹکڑے ہوا اور بنگلہ دیش کے نام سے ایک نئی ریاست معرض وجود میں آئی۔ ان مزاکرات کی رو سے شملہ معاہدہ طے پایا جسکی شرائط نے پاک بھارت تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ دوسری دفعہ دونوں ممالک کے سربراہان کو مل بیٹھنے کی ضرورت تب پیش آئی جب بھارت نے مئی 1998ء میں پوکھران کے مقام پر ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کو ایٹمی ملکوں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ان دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے بھی 28مئی 1998ء کو چاغی کے مقام پر چھ ایٹمی دھماکے کئے۔ان ایٹمی دھماکوں کے نتیجے میں اس خطے میں ایٹمی خطرات بڑھ گئے جسکی بدولت بین الاقوامی سطح پر دونوں ملکوں پر دباؤ ڈالا گیا کہ مل بیٹھ کر اپنے معاملات کا حل نکالیں۔

بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نامور بھارتی شخصیات مثلاََ دیو آنند، جاوید اختر، شتروگن سنہا، کلدیپ نیئر اور کپل دیو وغیرہ کے ہمراہ دوستی بس کے ذریعے لاہور پہنچے ۔جواباََ اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم میاں محمد نوازشریف بھی پاک بھارت بارڈر پر انکا استقبال کرنے گئے۔ لاہور میں ہونے والے ان مزاکرات کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جسے لاہور اعلامیہ کہا جاتا ہے۔ دونوں ملکوں کے سربراہان کے مل بیٹھنے کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا اور اسے امن کی طرف پیش رفت گردانا گیا۔ لیکن اس اعلامیے کی سیاسی ابھی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ امن کی فاختائیں اڑانے والوں کو کارگل کے مقام پر ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہونا پڑا۔دونوں ممالک کے درمیان چھڑنے والی اس جنگ نے اس خطے حالات یکسر بدل کر رکھ دیے۔ لاہور اعلامیہ آخری موقع تھا جب دونوں ممالک کے سربراہان نے ایک میز پر بیٹھ کر اپنے مسائل کو حل کرنے کی لاحاصل سعی کی۔
کارگل جنگ کے بعد پاکستان میں جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی اور اقتدار ایک بار پھر فوج کے ہاتھ میں آگیا۔ اگرچہ ڈکٹیٹر مشرف نے بھی بھارت کے ساتھ مزاکرات کی کئی کوششیں گی مگر کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ ملی۔ بعدازاں پیپلز پارٹی اور پھر ن لیگ کی حکومتوں کا قیام عمل میں آیا لیکن دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کی بہتری میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ اپنے سابقہ دور حکومت میں اگرچہ میاں محمد نواز شریف بھارتی وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لئے گئے لیکن اسکے باوجود حالات بدستور کشیدہ رہے اور لائن آف کنٹرول پر گولہ باری جاری رہی۔
پاک بھارت تعلقات کی تاریخ میں اہم موڑ تب آیا جب پاکستان میں عمران خان جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں جیت حاصل کر کے حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ جیت کے بعد اپنی پہلی تقریر میں عمران خان نے بھارت کو پیش کش کی کہ اگر بھارت ایک قدم ہماری طرف چل کر آئے گا تو پاکستان دو قدم اسکی طرف چل کر جائے گا۔ بعد ازاں عمران خان کی دعوت پر بھارتی نامور سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو عمران خان کی وزارت عظمیٰ کی حلف برداری میں شریک ہوئے جہاں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر باجوہ ان سے بغل گیر ہوئے اور انکو خوشخبری دی کہ پاکستان جلد ہی کرتارپور بارڈر بھارتی سکھوں کے لئے کھول دے گا تاکہ سکھ برادری بغیر ویزے کے گوردوارہ دربار صاحب کی یاترا کرسکیں۔ نوجوت سنگھ سدھو کی خوشی کی دیدنی تھی جب میڈیا سے گفتگو کرنے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرے یار (عمران خان ) نے بن مانگے ہی مجھے سب کچھ دے دیا ہے۔ امن کا یہ پیامبر پاکستان سے بھی امن کا پیغام لے کر اپنے وطن لوٹا اور بھارت میں پاکستان کے محبت نامے کی خوب چرچا کی۔
پاکستان کی طرف سے کرتار پوربارڈر کھولنے کی تجویز کو بھارت نے 22نومبر کو سرکاری طور پر قبول کیا۔ جسکے نتیجے میں پاکستان کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ 28نومبر کو وزیراعظم عمران خان کرتار پور بارڈر کھولنے کا افتتاح کریں گے۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنی ہم منصب بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو بھی اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی جسکے جواب میں سشما سوراج نے معذرت ظاہر کی کہ انتخابی مصروفیات کی بدولت وہ شرکت نہیں کرسکتیں البتہ انکے دو اہم وزیرمسز ہر سیمرٹ کوربادل اور مسٹر ہردیپ سنگھ پوری اس تقریب میں شرکت کریں گے۔ سشما سوراج نے مزید کہا کہ انکی عدم شرکت کو غلط رنگ نہ دیا جائے۔ علاوہ ازیں پاکستان کی طرف سے بھارتی پنجاب کے وزیراعلی کیپٹن (ر) امریندر سنگھ اور سابق بھارتی کرکٹر اور بھارتی پارلیمنٹ کے رکن نوجوت سنگھ سدھو کو بھی اس تقریب میں شرکت کے لئے مدعو کیا گیا ہے۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ بھارت میں کرتار پور بارڈر کھولنے کی تقریب میں شرکت کے سلسلہ میں بھارتی پنجاب کے وزیراعلی امریندر سنگھ نے اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہی سے ٹیلی فون پر بات کی ہے اور انہیں بھارت آنے کی دعوت دی ہے جسے پرویز الہی نے قبول کیا ہے اور درخواست کی ہے کہ وہ بھی کرتار پور بارڈر کھولنے کی تقریب میں شرکت کے لئے پاکستان ضرور آئیں۔
نئی دہلی میں میں بابا گورونانک کی سالگرہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیراعلی نریندر مودی نے کہا کہ کسی نے سوچا تھا کہ دیوار برلن گرے گی؟1947ء میں جو ہونا تھا ہوگیا اب کرتار پور راہدرای دونوں ملکوں کے درمیان پل کا کام کرے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرحد کھلنے سے پاک بھارت تعلقات مضبوط ہونگے کیونکہ باہمی رابطوں میں زیادہ طاقت ہوتی ہے۔بھارت میں انتخابات کے قریب نریندر مودی کے منہ سے پاک بھارت امن کے الفاظ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے کیونکہ بھارت میں انتخابات مسلم اور پاکستان مخالف نعروں کی بنیاد پر جیتے جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ پاکستان میں بھی حالات اب ماضی کی نسبت قدرے تبدیل ہیں کیونکہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں اور مزاکرات کے ذ ریعے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ جس طرح مشرقی اور مغربی جرمنی کے درمیان دیوار برلن گرا دی گئی تھی اسی طرح یہ بہترین وقت ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان نفرتوں کی دیوار کو گرا دیا جائے اور کشمیر و دیگر مسائل افہام تفہیم سے حل کرلیے جائیں تاکہ یہ خطہ بھی ترقی کی منازل طے کرسکے۔

IndoPak Peace via Kartarpur Border

پاک بھارت امن براستہ کرتارپور بارڈر

کرتارپور کا علاقہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کی تحصیل شکرگڑھ، ضلع نارووال میں پاک بھارت بارڈر کے نزدیک واقع ہے۔یہ وہ جگہ ہے جسکے اردگرد پاکستان اور بھارت کے درمیان 1965ء اور 1971ء کی جنگیں لڑیں گئیں۔ اس لحاظ سے یہ مقام دونوں ملکوں کی تاریخ میں اہم مقام رکھتا ہے۔ تاہم سکھوں کے لئے یہ علاقہ انتہائی مقدس مقام گردانا جاتاہے کیونکہ یہ وہ مقام ہے جہاں سکھوں کے گرو بابا گرونانک اس جہان فانی سے رخصت ہوئے اور انکی یاد میں یہاں گوردوارہ دربار صاحب کرتارپور تعمیر کیا گیا۔ پاکستان اور بھارت کے آپسی تعلقات زیادہ تر جنگوں اور لفظی گولہ باری پر مبنی رہتے ہیں جسکا سب سے زیادہ نقصان سکھوں کو ہوتا ہے کیونکہ زیادہ تر سکھ ہندوستان میں آباد ہیں لیکن انکے اہم مذہبی اور مقدس مقامات پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ لہذا جنگ کے ماحول میں پاکستان میں اپنے مذہبی مقامات کی یاترا کے لئے ویزے کے حصول میں انہیں کافی مشکلات پیش آتی ہیں۔ لہذا وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن قائم ہونے کے ہمیشہ متمنی رہتے ہیں۔
جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں بھارت کو امن کی دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر بھارت ایک قدم آگے آئے گا تو ہم دو قدم چل کر جائیں گے۔مزید یہ کہ انہوں نے وزارت عظمیٰ کی حلف برداری کی تقریب میں کئی نامور بھارتی شخصیات کو بھی مدعو کیا ۔ جن میں سے صرف نجوت سنگھ سدھو شریک ہوئے جوکہ سابق کرکٹر اور بھارتی پارلیمنٹ کے رکن بھی ہیں۔اگرچہ انکے اس فعل پر کافی لعن طعن کی گئی حتی کہ شدت پسندوں کی طرف سے انہیں دھمکیاں بھی دی گئی لیکن سدھو جی بلا خوف خطر اپنے جگری دوست کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہوئے جسے پوری دنیا نے دیکھا اور دونوں اہم شخصیات کے اس مل بیٹھنے کو نیگ شگون قرار دیا۔
حلف برداری کی اس تقریب میں انتہائی خوشگوار حیرت تب ہوئی جب چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر باجوہ نجوت سنگھ سدھو سے بغل گیر ہوئے اور ان چند لمحوں کی ملاقات میں یہ خوشخبری سنائی کہ آپ بھارت سے امن کا پیغام لائے ہیں تو بدلے میں ہم بھی آپکو ایک خوشخبری دیتے ہیں وہ یہ کہ پاکستان جلد ہی کرتارسنگھ بارڈر سکھوں کے لئے کھول دے گا جہاں سکھ یاتری بغیر ویزہ کے اپنے اس اہم مذہبی مقام کی یاترا کرسکیں گے۔ حلف برداری کی تقریب کے بعد میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے انتہائی پرمسرت لہجے میں نجوت سنگھ سدھو نے وزیراعظم عمران خان اور چیف آف آرمی سٹاف کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میرے یار (عمران خان) نے میری جھولی بھر دی ہے۔ مجھے بن مانگے اتنا کچھ مل گیا کہ میں خوشی سے جھوم اٹھا ہوں۔
حلف برداری کی تقریب سے واپسی پر نجوت سنگھ سدھو کو اپنے ملک میں بے پناہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف سے بغل گیر کیوں ہوئے۔ جس حلف برداری کی تقریب میں وہ شریک تھے وہاں آزاد کشمیر کے وزاء بھی موجود تھے جوکہ ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ اسی طرح کے اور کئی الزامات ان پر لگائے گئے ۔ حتی کہ شدت پسندوں کی طرف سے جان سے مار دینے کی دھمکیاں بھی دی گئیں لیکن وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔کھلم کھلا میڈیا پر پاک بھارت دوستی کا پرچار کرتے رہے اور اپنے جگری دوست عمران خان کا شکریہ ادا کرتے رہے۔
سابق بھارتی کرکٹر نجوت سنگھ سدھو کے غیر متزلزل ارادوں کو دیکھتے ہوئے دوسرے امن پسند لوگوں نے بھی پاک بھارت امن کی آوازیں بلند کرنا شروع کردیں۔ پاکستان تو شروع سے ہی امن کا خواہاں ہے۔ اصل مسئلہ بھارتی شدت پسندی اور ہٹ دھرمی ہے۔ لیکن اب برف پگھلنا شروع ہوگئی ہے کیونکہ پاکستان کی طرف سے کرتار سنگھ بارڈو کھولنے کی دعوت نے صحیح جگہ پر چوٹ کی ہے۔ اگرچہ اگلے سال اپریل یا مئی میں بھارت میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں جس میں کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی پارٹیاں مسلم اور پاکستان مخالف جذبات کو ابھاریں کیونکہ ہندو ووٹ جیتنے کے لئے یہ امر انتہائی اہم ہے۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود بھی بھارتی حکومت نے پاکستان کی کرتار سنگھ بارڈر کھولنے کی دعوت کو سرکاری طور پر قبول کر لیاہے۔بھارت کی طرف سے اس مثبت اقدام کی تعریف کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اسے امن کی طرف ایک قدم قرار دیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جمود ٹوٹنے کے اس عمل کی ہر حلقہ کی طرف سے تعریف کی جارہی ہے۔ بھارت سے آئے سکھ یاتریوں کو جب یہ معلوم ہوا کہ وزیراعظم عمران خان 28نومبر کو کرتار پور بارڈر کھولنے کا افتتاح کریں گے توانہوں نے انتہائی خوشی کا اظہار کیا۔پاکستان میں یاترا پر آئی ایک بھارتی اداکارہ سونم کپور نے کہا کہ عمران خان صاحب ! آپکی شخصیت میں سچائی ہے۔ آپ دنیا کے لئے پاکستان کا نیا چہرہ ہیں۔ امید ہے کہ آپ دنیا کا پاکستان کے متعلق امیج بدلیں گے۔
اگرچہ پاکستان اور بھارت کے درمیان برسوں سے جمی برف پگھلنا شروع ہوگئی ہے مگر نفرتوں کے گلیشئر پگھلنے میں ابھی وقت لگے گا۔ صدیوں پر محیط ہندو مسلم نفرتیں دنوں میں ختم نہیں ہونگی۔ لہذا وقت کا تفاضا ہے کہ دونوں ا طراف سے محبتوں پر مبنی ایسے چھوٹے چھوٹے اقدام کیے جائیں۔ نفرت ایک دم سے اثر کرتی ہے لیکن محبت آہستہ آہستہ اثر کرتی ہے۔ دونوں اطراف سے ایسے چھوٹے چھوٹے اقدامات اٹھائے جائیں جس سے ایک دوسرے پر اعتماد میں اضافہ ہو۔ اگرچہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کا قیام ایک خواب ہے لیکن خواب دیکھنے پر پابندی تو نہیں۔ یورپ صدیوں ایک دوسرے کے خلاف لڑتا رہا اور ان لڑائیوں کے دوران لاکھوں لوگ مارے گئے لیکن باہم متصادم یہ اقوام آج یورپی یونین کے جھنڈے تلے اکٹھی ہوکر امن سے رہ رہی ہیں۔ تو آئیں ہم بھی خواب دیکھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت نفرتیں بھلا کر اکٹھے ہوجائیں۔ باہمی بارڈر کھل جائیں جس سے تجارت پھلے پھولے گی، کھیلوں کے میدان آباد ہوں گے، فنکار و اداکار آئیں جائیں گے۔ کشمیریوں کو ظلم زیادتی سے چھٹکارہ ملے گا۔یوں نفرتوں کے یہ گلیشئر پگھل جائیں گے اور ایک دن آئے گا کہ پاکستان اور بھارت کے لوگ بغیر ویزے کے آنا جانا شروع ہوجائیں گے ۔ بالکل ایسے ہی جیسے کرتارپور کا علاقہ سکھوں کے لئے ویزہ فری ہونے والا ہے۔ تو چلئے گمان کرتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن و خوشحالی کی بحالی کا راستہ کرتار پور سے ہوکر گزرے گا۔

To serve humanity is not a good deed?


چھوٹی بات
کیا انسانیت کی خدمت نیکی نہیں؟۔۔۔۔۔۔۔محمد افضل بھٹی

"ڈاکٹر صاحب!  آپ روزانہ ڈسپنسری کیوں نہیں کھولتے؟"
ادارے کے نئے سربراہ نے سوال کیا۔
"میں تبلیغ کے لئے جاتا ہوں، میں اپنا مشن نہیں چھوڑ سکتا"
سرکاری ڈاکٹر نے سینہ تان کر جواب دیا۔
"آپ اپنا ٹرانسفر کہیں اور کروا لیجئے"
"کوشش کرکے دیکھ لیں میرے ٹرانسفر کی"
ادارے کے نئے سربراہ نے اپنی پوری کوشش سے 
ڈسپنسری میں نئے ڈاکٹر کی تعیناتی کروائی جبکہ
مشن والے ڈاکٹر کا کہیں اور تبادلہ کروا دیا۔
وہ ڈسپنسری جو برسوں بند رہتی تھی
آج  ایک چھوٹا ہسپتال بن چکی ہے۔
صرف تبلیغ نیکی ہے؟
کیا انسانیت کی خدمت کرنا نیکی نہیں؟