کیا تحریک انصاف کی حکومت گرِ سکتی ہے؟
تین بار وزیراعظم منتخب ہونے والے واحد سیاسی لیڈر میاں نوازشریف جیل میں ہیں اور تاحیات نااہل ہوچکے ہیں۔ ن لیگ کے صدر شہباز شریف عرف خادم اعلیٰ نیب کے ریڈار پر ہیں جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری جعلی اکاؤنٹس کیس میں ایگزٹ کنٹرول لسٹ پرہیں اور شنید ہے کہ جلد ہی گرفتار کرلئے جائیں گے۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے سربراہان کو کرپشن اور منی لانڈرنگ کے مقدمات کا سامنا ہے۔ یہ وہ مقدمات ہیں جو دونوں سیاسی پارٹیوں کے سربراہان نے اپنے اپنے ادوار میں ایک دوسرے کے خلاف درج کروائے۔ لیکن ان مقدمات کا فائدہ نئی حکومت یعنی تحریک انصاف کو ہورہا ہے کیونکہ اپوزیشن رہنماؤں کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کے لئے انہیں کوئی زیادہ تگ و دو نہیں کرنا پڑی۔ اگرچہ شریف اور زرداری خاندان کے خلاف زیادہ تر مقدمات کی پیروی نیب اور ایف آئی اے کررہی ہے لیکن اسکا کریڈٹ حکومت لے رہی ہے۔
چونکہ عمران خان وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد سے اب تک ایک ہی راگ الاپتے آرہے ہیں کہ میں چوروں اور ڈاکوؤں کو نہیں چھوڑوں گا اوران سب کو جیلوں میں ڈالوں گا۔ اس لئے ان اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف کوئی حکم خواہ سپریم کورٹ جاری کرے یا نیب اور ایف آئی اے کوئی ایکشن لے ، اپوزیشن یہی سمجھ رہی ہے کہ یہ سب حکومتی ایما پر کیا جارہا ہے۔ اس وقت جو ملکی سیاسی ماحول اتنا گرم ہوچکا ہے اسکی زیادہ تر ذمہ داری حکومتی وزراء اور خود وزیراعظم پر عائد ہوتی ہے۔ کسی بھی نئی نویلی حکومت کو اقتدار میں آنے کے فوری بعد ملکی سیاسی حالات میں ٹھہراؤ لانا ضروری ہوتا ہے تاکہ سرمایہ کاری کو فروغ ملے اور روزگار کے نئے نئے مواقع پیدا ہوں مگر پی ٹی آئی کی حکومت نے آتے ہی اپنے خلاف کئی محاظ کھول لئے ہیں۔
کرپشن کے خلاف کھلم کھلا اعلان جنگ سے حکومت نے نہ صرف سیاستدانوں کو الرٹ کردیا ہے بلکہ بیوروکریٹس کوبھی چوکنا کردیا ۔ وہ بیوروکریٹس جو کبھی بلا جھجک بڑے بڑے کام کرجاتے تھے اب جیل جانے کے ڈر سے کسی بھی کام کو کرنے سے کترارہے ہیں اور دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ لہذا حکومت سٹینڈ بائی موڈ پر کھڑی نظر آرہی ہے۔ وزراء کی صرف زبانیں ہل رہی ہیں لیکن عملی طور پر کوئی کام ہوتا نظر نہیں آرہا۔ جبکہ دوسری طرف مہنگائی ہے کہ بڑھتی جارہی ہے جس سے عوام میں تشویش کی لہر دوڑ رہی ہے۔
حکومتی خزانہ چونکہ خالی ہے اور وزیراعظم سابقہ وزراء کی طرح ذاتی تشہیر کے عادی نہیں لہذا حکومتی اشتہاروں کی بندش ہے جس سے میڈیا کی نشوونما رک گئی ہے اور زیادہ تر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیاکے اداروں کو جان کے لالے پڑگئے ہیں۔ پیٹ خالی ہو تو کوئی سب اچھا ہے کی گردان نہیں گاتا۔ لہذا میڈیا بھی اب نئی حکومت پر زور شور سے چڑھ دوڑاہے اور ہر چھوٹی بڑی خامی کو بے نقاب کررہا ہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ ماسوائے فوج اور عدلیہ کے ملک کے اندر کوئی تیسری قوت تحریک انصاف کی حکومت کو سپورٹ نہیں کررہی ۔ اس پر مستزاد یہ کہ حکومتی وزراء کی زبانیں ایسی آگ پھینک رہی ہیں کہ جلتی پر تیل کا کام کررہی ہیں۔ حال ہی میں وزیراطلاعات نے ایسی بیان بازی کی ہے کہ سپیکر پنجاب اسمبلی کے بیٹے مونس الہی نے حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دے ڈالی ہے۔ بلوچستان میں باپ (بلوچستان عوامی پارٹی ) کے سربراہ اختر مینگل نہ صرف حکومت سے ناراض ہیں بلکہ منگل کے روز قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے چیمبر میں ہونے والی اپوزیشن رہنماؤں کے اجلاس میں بھی شرکت کی ہے۔ یہ واحد سیاسی لیڈر ہیں جو حکومتی اتحادی ہونے کے باوجود اپوزیشن کے اجلاس میں شرکت کررہے ہیں۔ آصف زرداری اور شہباز شریف گلے مل چکے ہیں اور نئے میثاقِ جمہوریت کے عہدوپیمان بھی کرچکے ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمن پھر سے ایکٹو ہوچکے ہیں۔
15جنوری کو ہونے والی اپوزیشن رہنماؤں کی اس میٹنگ کی پسِ پردہ حقیقت یہ کہ حکومت پر دباؤ ڈالا جائے اور ایک نیا این آر اولیا جائے بصورت دیگر حکومت گرانے کی کوششیں کی جائیں۔ سب سے پہلی کوشش جو کی جائے گی وہ سینٹ چیئرمین کی تبدیلی ہے جہاں اپوزیشن کو حکومت پر برتری حاصل ہے۔ اسکا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ چونکہ سینٹ کا چیئرمین اپوزیشن کا ہوگا لہذا حکومت کو قانون سازی میں دشواری پیش آئے گی اوراسے سینٹ سے بل پاس کروانے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اپوزیشن دوسرا قدم جو اٹھائے گی وہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے لئے اسکے اتحادیوں کو توڑنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس سلسلے میں اپوزیشن پہلی سیڑھی چڑھتی نظر آرہی ہے وہ یہ کہ حکومتی اتحادی باپ کے رہنما اپوزیشن کی صفوں میں کھڑے نظر آرہے ہیں۔ ایسے ہی دوسری حکومتی اتحادی پارٹیوں کو توڑنے کی کوششیں کی جائیں گی لیکن اپوزیشن کو اس میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔ اسکی وجہ یہ ہے حکومتی اتحادی جماعتوں کے سربراہان کو بخوبی علم ہے کہ اس وقت انکو جو حکومتی وزارتیں ملی ہوئی ہیں اگر وہ اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہیں تو ایسی اہم وزارتوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے کیونکہ اپوزیشن جماعتوں میں اہم عہدے مانگنے والے لوگ بہت زیادہ ہونگے جبکہ وزارتیں کم ہونگی۔ لہذا حکومتی اتحادی ہاتھ والی ایک کو چھوڑ کر جھاڑی والی دو کے پیچھے نہیں بھاگیں گے۔
علاوہ ازیں، تحریک انصاف کی حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جتنی انڈرسٹینڈنگ اس وقت ہے پاکستان کی تاریخ میں ایسا موقع پہلے کبھی نہیں آیا۔لہذا ملٹری اسٹیبلشمنٹ کبھی نہیں چاہے گی کہ تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہو۔ مزید یہ کہ حکومت اور فوج ایک پیچ پر ہیں اور طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے دباؤ ڈال رہے ہیں جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہورہے ہیں لہذا انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ بھی اس حق میں نہیں ہوگی کہ تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہو۔چین ، سعودی عرب، قطر اور ترکی کے دوروں کے دوران وزیراعظم کی آؤبھگت ظاہر کرتی ہے کہ یہ ممالک بھی عمران خان کی حکومت کو گرانے والے اقدام کی مخالفت کریں گے لہذا یہ بالکل واضح ہے کہ اس وقت تحریکِ انصاف کی حکومت کو گرایا نہیں جاسکتا۔