Friday, November 16, 2018

Water Scarcity.


قوم کو پیاسا نہیں مرنے دیں گے
آج کل سپریم کورٹ میں زیر زمین پانی نکالنے سے متلعق ایک کیس زیر سماعت ہے جس میں صاف پانی مہیا کرنے والی ملک کی نامور کمپنیاں کٹہرے میں کھڑی ہیں کہ کس طرح انہوں نے برسوں زیرزمین پانی نکال کر اربوں روپے منافع کمایا لیکن ٹیکس کے نام ایک پھوٹی کوڑی بھی خزانے میں جمع نہیں کروائی۔ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ 
دوران سماعت ہوش ربا انکشافات ہورہے ہیں مثلاََ عدالتی معاون نے بتایا کہ ایک کمپنی کا ایک پلانٹ ہر گھنٹے میں ایک لاکھ لٹر زیرزمین پانی نکالتا ہے۔ ہر گھنٹے اتنی بڑی مقدار میں پانی کے نکالے جانے سے زیرزمین پانی کی سطح گررہی ہے۔پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی مثال لے لیں۔ چند سال قبل کراچی میں زیر زمین پانی ایک سو فٹ پر موجود تھا لیکن ان کمپنیوں کی بدولت اب یہ سطح گر کر چار سو فٹ ہوچکی ہے۔ ایک کمپنی کے نمائندے نے بتایا کہ زیرزمین پانی نکال کر بیچنے سے کمپنی کو ہر سال پندرہ کروڑ اسی لاکھ روپے آمدن ہوئی جبکہ کمپنی پچھلے تیس سالوں سے کام کر رہی ہے۔ اگر اس کمپنی کی پچھلی تیس سالہ آمدن کا حساب لگایا جائے تو یہ تقریبا چار سو پچاس کروڑ بنتی ہے جو ایک بہت بڑی رقم ہے لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو بدلے میں کمپنی نے سرکاری خزانے میں ٹیکس کے نام پر ایک روپیہ بھی جمع نہیں کروایا جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کمپنیوں نے نہ صرف ٹیکس چوری کی بلکہ زیر زمین پانی بالکل مفت استعمال کرکے ملک و قوم کا نقصان کیا۔ 
سپریم کورٹ کے علم میں جب یہ بات آئی کہ منرل واٹر بیچنے والی کمپنیوں نے زیر زمین پانی بالکل مفت استعمال کی ہے تو معزز جج صاحبان نے انکے وکلاء کو ایک آفر دی ۔ وہ یہ کہ یا تو فی لیٹر ایک روپے ٹیکس ادا کرو ورنہ صنعت بند کر دو۔ لیکن ان نام نہاد صاف پانی مہیا کرنے والی کمپنیوں کے مالکان اس آفر کو بھی قبول کرنے پررضا مند نہیں۔بقول انکے کل کو یہ بھی سوا ل اٹھایا جا سکتا ہے کہ آپ آکسیجن استعمال کررہے ہیں اس پر بھی ٹیکس دو۔ جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ یہ مقدمہ آکسیجن کا نہیں پانی کا ہے۔ پہلے اسکا حساب دیں کیونکہ آپکے کلائنٹ اربوں روپے ہڑپ کر گئے اور ٹیکس ایک کوڑی بھی نہیں دیا۔
منرل واٹر بنانے والی کمپنیاں ایک بوتل پچاس روپے میں بیچ رہی ہیں جبکہ فی بوتل خرچہ صرف پانچ روپے ہے۔ اسطرح فی بوتل آمدن پینتالیس روپے بنتی ہے۔ ان پینتالیس روپوں میں سے یہ کمپنیاں کم از کم دو روپے ٹیکس دینے کو بھی تیار نہیں ۔غضب خدا کا۔اتنی لوٹ مارکے باوجود بھی ٹیکس کے نام پر ایک کوڑی دینے کو رضا مند نہیں۔ ان کا اعتراض یہ ہے کہ ایک روپے فی لٹر کے حساب سے اگر کمپنیاں ٹیکس دیں گی تو انہیں ایک کیوسک پانی پر چار کروڑ بیس لاکھ ٹیکس دینا پڑے گا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کمپنیاں صرف اور صرف اپنا مفاد دیکھ رہی ہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھ رہیں کہ ہر گھنٹے جو ایک لاکھ لٹر زیرزمین پانی نکالا جارہا ہے اور پھر اسکے ویسٹ سے باقی زیر زمین پانی کو آلودہ کیا جارہا ہے اسکا ذمہ دار کون ہے؟ایک تو ٹیکس چوری اور اوپر سے سینہ زوری۔ لیکن ان کمپنیوں کا یہ کھیل اب نہیں چل سکتا۔ اب یا تو یہ ٹیکس دیں گے یا پھر لوٹ مار کا یہ کاروبار بند کریں گے۔ 
منرل واٹر کے نام پر یہ کمپنیاں جو پانی بیچ رہی ہیں وہ صاف نہیں ہے۔ مزید یہ کہ اس پانی میں منرلز بھی پورے نہیں ہوتے۔ اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ان کے پاس پانی کے معیار کو چانچنے والے آلات ہی نہیں ہیں ۔علاوہ ازیں ان کمپنیوں میں کام کرنے والا عملہ بھی ناتجربہ کار ہے۔ حالت یہ ہے کہ اگر دریائے سندھ کے پانی میں سے بیکٹریاختم کر دئے جائیں تو دریا کا پانی انکے منرل واٹر سے ہزار گنا بہتر ہوگا۔ اور یہی وجہ ہے کہ چیف جسٹس نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسے منرل واٹر نہیں بوتل بند پانی کہا جائے۔مزید براں ڈی جی ماحولیات اور ڈی جی فوڈ اتھارٹی کو ہدایات جاری کیں کہ انکے معیار کو چانچنے کے لئے ٹیمیں تشکیل دی جائیں۔اگر کسی کمپنی کا معیار کم تر ہے تو اسے ایک ماہ کا وقت دیا جائے اسکے بعد بھی درست نہ ہو تواس صنعت کو بند کر دیا جائے۔ 
پاکستان میں آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے۔ آج سے نہیں بلکہ دہائیوں سے ایسا ہی چل رہا ہے کیونکہ یہ نام نہاد صاف پانی مہیا کرنے والی کمپنیاں آج معرض وجود میں نہیں آئیں بلکہ دہائیوں سے عوام کا خون چو س رہی ہیں۔پلانٹس لگاتے وقت انہوں نے کسی بھی سرکاری ادارے سے باقاعدہ این او سی حاصل کیا اور نہ ہی بعدازاں ایسی کوئی کوشش کی گئی۔ من مرضی سے پلانٹس لگائے، اپنی مرضی کا معیار بنایا،زیر زمین پانی مفت نکالتے رہے ، عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک ہوئے گندے پانی کو منرل واٹر کے نام پر بیچتے رہے اور اب جبکہ سپریم کورٹ نے شکنجہ کسا ہے تو اب بھی حتی الامکان کوشش کررہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح جان بخشی ہوجائے ۔یہی وجہ ہے کہ ملک کے نامور وکیلوں کو بھاری فیسیں دے کر مقدمے کے لئے ہائر کیا گیا ہے ۔ لیکن دوسری طرف سپریم کورٹ نے بھی ان نامور وکلاء پر واضح کر دیا ہے کہ آپ لوگوں نے اپنی بھاری فیسیں وصول کرلی ہیں لیکن ہم بھی قوم کا نقصان نہیں ہونے دیں گے۔ یہ مقدمہ ایک صنعت کے فائدے کا نہیں بلکہ پوری قوم کا ہے ۔ہم قوم کو پیاسا نہیں مرنے دیں گے۔ 

Journalism:a dying profession

میڈیا کی ڈوبتی ناؤ کو سہارا
پاکستان میں پچھلے چند ہفتوں سے میڈیا مالکان کی طرف سے اپنے ورکرز کو نکالنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ ان نکالے گئے میڈیا ورکرز میں ملک کے کئی نامور صحافی ، کالم نگار اور اینکرزبھی شامل ہیں۔ میڈیا ورکرز کا نکالاجانا کئی شکوک و شہبات اور سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ مثلاََکئی نکالے گئے میڈیا ورکرز الزام عائد کر رہے ہیں کہ انکو نکلوانے میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے، کچھ پی ٹی آئی کی حکومت پر الزام لگارہے ہیں۔چند ناقدین اسے نئی حکومت کی میڈیا کنٹرول پالیسی قرار دے رہے ہیں۔ الغرض جتنے منہ اتنی ہی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ لیکن حقائق کیا ہیں؟ آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
سابقہ حکومتوں میں وزیراعظم اور وزرائے اعلی کو کچھ صوابدیدی اختیارات حاصل تھے جسکی رو سے وہ اپنی مرضی و منشا کے مطابق صوابدیدی فنڈز میں سے رقوم خرچ کر سکتے تھے اور صوابدیدی فنڈز کے اس استعمال پر ان سے کوئی باز پرس نہیں کی جاسکتی تھی۔ لہذا سابقہ حکومتوں نے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے اندھا دھند پیسہ میڈیا کو کھلایا ۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ زیادہ تر ٹی وی چینلز اور خبارات سب اچھا ہے کی گردان الاپتے رہے اورعوام کے ٹیکسوں کا پیسہ خزاں رسیدہ پتوں کی طرح دھڑا دھڑا میڈیا مالکان کی جھولی میں گرتا رہا۔ ان کی دیکھا دیکھی کئی دوسرے بزنس مینوں کی بھی رال ٹپکی جس سے اخبارات اور چینلز کھنبیوں کی طرح بڑھتے چلے گئے۔ کسی نے یہ نہ سوچا کہ جب پیسے کی یہ برسات تھمے گی تو میڈیا کے ورکرز کی روزی روٹی کا بندوبست کہاں سے ہوگا؟
سابقہ حکومتوں کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کے معاشی قرضے تہہ در تہہ بڑھتے رہے یہاں تک کہ قرضے کی رقم تیس ہزار ارب روپے تک جاپہنچی تاہم میڈیا کے ذریعے عوام کو یہی باور کروایا جاتا رہا کہ پاکستان ترقی کررہا ہے۔ لیکن جب ن لیگ کا دور اقتدار ختم ہوا اور انتخابات کے بعد عمران خان وزیراعظم بنا وہ یہ دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گیا کہ خزانہ خالی ہے،تیس ہزار ارب روپے قرضوں کا بوجھ سر پر، بارہ سو ارب روپے بجلی اور تقریبا پانچ سو ارب روپے گیس کے گردشی قرضے منہ چڑا رہے ہیں جبکہ سابقہ حکومت ترقی کے جھوٹے نعرے لگاتی رہی۔ لہذا سب سے پہلا کام جو وزیراعظم نے کیا وہ صوابدیدی فنڈز کا خاتمہ ہے جس کا سب سے بڑا حصہ میڈیا مالکان کی جھولی میں جاتا تھا۔ حکومت کی طرف سے صوابدیدی فنڈز کا اجرا ء رکا تو میڈیا کی چکا چوند روشنیاں ماند پڑنے لگیں۔ امریکی کہاوت ہے کہ دنیا میں کوئی ڈنر فری نہیں ہوتا۔ لہذا زیادہ تر ٹی وی چینلز اور اخبارات نے حکومت کے خلاف جھوٹی خبریں چلا کر حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس بار انکا پالا عمران خان جیسے ضدی اور ہار نہ ماننے والے شخص سے پڑا ۔وہ بھی اپنی ضد پر اڑ گیا کہ کر لو جو کرنا ہے پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملنے والی۔ چونکہ حکومت کا خزانہ خالی تھا اس لئے سابقہ حکومتو ں کے واجبات بھی ادا نہ کئے جاسکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بادل ناخواستہ میڈیا مالکان کو اپنی ڈوبتی ناؤ کو بچانے کے لئے میڈیا ورکرز کو نکالنا پڑا جسکی زد میں کچھ نامور رپورٹرز، کالم نگار ، صحافی اور اینکرز بھی آئے۔ 
درج بالا سطور سے معلوم ہوتا ہے کہ میڈیا ورکز کے نکالے جانے میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے اور نہ ہی پی ٹی آئی کی حکومت کا ۔ بلکہ اسکا الزام بھی سابقہ حکومتوں کے سر جاتا ہے جنہوں نے اپنی جھوٹی انا کو قائم رکھنے کے لئے اندھا دھند صوابدیدی فنڈز کا استعمال کیاجس سے میڈیا مالکان کو بھی اپنے کاروبار کی وسعت کے لئے زیادہ سے زیادہ ورکرز رکھنے پڑے۔ اخبارات و رسائل اور ٹی وی چینلز کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ حکومتی اشتہارات ہوتے ہیں۔ اب چونکہ حاکم وقت کو اشتہارات پر تصاویر لگوانے کو شوق ہے اور نہ ہی جھوٹ پر جھوٹ بولنے کا مرض لاحق ہے اس لئے سرکاری اشتہارات کی بارش تھم گئی ہے۔ اس بارش کے تھمنے سے میڈیا کی زمین بنجر ہونا شروع ہوگئی ہے اور جڑی بوٹیوں کے ساتھ ساتھ تناور درخت بھی سوکھنے لگے ہیں۔ دوسری طرف سعودی عرب اور چین کے دوروں کے بعد وزیراعظم عمران خان اتنی امداد و قرضہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے کہ حکومتی نظم و نسق باآسانی چلایا جا سکے ۔ حالات بہتر ہوتے ہیں وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کہ میڈیا مالکان کو فوری واجبات کی ادائیگی کی جائے۔ اس کا ایک فائدہ ایک یہ ہوگا کہ میڈیا ورکرز کو نکالے جانے کا سلسلہ رک جائے گاجبکہ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ اور حکومتِ وقت پر تنقید کے نشتر برسنا بھی کم ہوجائیں گے۔ 
اس تمام تر صورتحال کی ذمہ دار اصل پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی حکومتیں ہیں جنہوں نے سرکاری اشتہارات کو سیاسی آلہ کار کے طور پر استعمال کیا۔ صوابدیدی فنڈز بھی اپنی صوابدید کے مطابق استعمال کیے ۔ جن نشتریاتی اداروں نے حکومت کی جھوٹی کارکردگی کا خوب ڈھنڈورا پیٹا ان پر سرکاری تجوریوں کے منہ کھول دیئے گئے تھے جبکہ حمایت میں نہ بولنے والوں کو بلیک میل کیا جاتا رہا جس سے میڈیا کا بزنس بھی متاثر ہوا۔ موجودہ حکومت کا موقف ہے کہ وہ سابقہ حکومتوں کی میڈیا پالیسی کی حامی نہیں۔ اب سرکاری اشتہارات کو بطور سیاسی ہتھیار کے استعمال نہیں کیا جائے گا بلکہ ایک توازن قائم کیا جائے گا۔ موجودہ حکومت کے بقول میڈیا کو سرکاری اشتہارات دینے کے متعلق ایک ایسا لائحہ عمل تیار کیا جارہاہے جس سے سرکاری اشتہارات حکومتی کنٹرول سے نکل جائیں گے اور تمام میڈیا چینلز کو میرٹ کی بنیاد پر اشتہارات ملیں گے۔ اگر حکومتِ وقت اپنے اس وعدے پر عمل درآمد کرتی ہے تو ایک اچھاماحول پروان چڑھے گا ۔ میڈیا چینلز میں مقابلے کا رجحان پیدا ہوگا۔جھوٹی خبروں کا قلع قمع ہوگا۔ ریٹنگ کی دوڑ اور سب سے پہلے خبر دینے کی پالیسیوں کی بجائے مستند خبروں کی پالیسیاں پروان چڑھیں گی۔ لہذا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وزیراعظم کی طرف سے واجبات کی ادائیگی کے اعلان سے میڈیا کی ڈوبتی ناؤ کو سہارا ملے گا۔ 

Adalti Nizam ko Overhauling ki Zrorat he

عدالتی نظام کو اوورہالنگ کی ضرورت ہے
کسی ملک کے امن و سکون کو جانچنا ہے تو اس ملک کے عدالتی نظام کا مطالعہ کر لیجئے ۔ اگر عدالتیں بروقت اور سستا انصاف مہیا کررہی ہیں تو ملک امن و شانتی کا گہوارہ ہوگا بصور ت دیگر جسکی لاٹھی اسکی بھینس والا معاملہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ عظیم دوم کے دوران کسی نے برطانوی وزیراعظم چرچل کو بتایا کہ دشمن کے جہاز لندن پر شدید بمباری کر رہے ہیں ۔ چرچل نے یہ نہیں پوچھا کہ ہمارے فائٹر طیارے کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔بلکہ اس نے سوال کیا کہ کیا ہمارا عدالتی نظام ٹھیک کام کر رہا ہے ؟جواب ہاں میں آیا تو چرچل نے کہا ،اگر ایسا ہے تو پھر فکر کی کوئی بات نہیں۔ دشمن ہم پر ہاوی نہیں ہوسکتا۔
برطانیہ میں نصف صدی قبل بھی عدالتیں انصاف مہیا کررہی تھیں مگر ہمارے عدالتی نظام کی حالت انتی دگر گوں ہے کہ آج بھی اعلی عدلیہ کے ججز کف افسوس ملتے نظر آتے ہیں۔ حال ہی میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جناب آصف سعید کھوسہ نے فوجداری مقدمات کی سماعت کے دوران عدالتی نظام کی خرابیوں پر بات کرتے ہوئے ریمارکس دئے کہ عدالتی نظام انتہائی خراب ہے۔ جھوٹے گواہوں کی بھرمار ہے۔انکو کوئی پوچھنے والا نہیں۔جھوٹی گواہی کی بنیاد پر ٹرائل کورٹ پھانسی کی سزا دیتی ہے، ہائی کورٹ عمر قید کی سزا دیتی ہے جبکہ سپریم کورٹ سے ملزم بری ہوجاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ جھوٹی گواہی پر سزا دینے والے ججوں سے بھی پوچھ گچھ ہوگی اور جھوٹی گواہی دینے والوں کو بھی سزائیں ہونگی۔ جسطرح لاہور میں ہیلمٹ نہ پہننے والے چند لوگوں کے چالان ہوئے تو سارا شہر ٹھیک ہوگیا۔ اسی طرح جلد ہی جھوٹے گواہوں کو پکڑیں گے اور جھوٹی گواہی پر سزا دینے والے ججوں سے بھی باز پرس ہوگی۔
جسٹس کھوسہ نے جھوٹی گواہی کے متعلق ریمارکس دیئے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک انگریز جج نے پنجاب کے متعلق فیصلہ دیا تو اس نے فیصلے میں لکھا کہ دنیا کے ہر کونے میں مرتا ہوا انسان سچ بولتا ہے مگر پنجاب میں مرتا ہوا انسان بھی جھوٹی گواہی دے کر دو تین لوگوں کو پھنسا کر جاتا ہے۔ جسٹس کھوسہ کے ریمارکس ے واضح ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کی عدالتوں میں انصاف صرف اسکو ملتا ہے جسکے پاس لاٹھی ہے یا پیسہ ہے۔اگرچہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں سچی گواہی دینے کا حکم دیا ہے خواہ اس سے انسان کے والدین اور رشتہ داروں کو نقصان ہی کیوں نہ پہنچے لیکن ہم کیسے مسلمان ہیں کہ اللہ کے حکم کی پیروی کی بجائے حکم عدولی کر رہے ہیں اور جھوٹی گواہیاں دے کر بے قصوروں کو سزائیں دلوا رہے ہیں۔جبکہ اس بارے میں واضح احکامات ہیں کہ مسلمان وہ ہے جسکے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہیں۔ اس حدیث کی روشنی میں دیکھا جائے تو جھوٹی گواہی دینے والا مسلمان ہی نہیں رہتا۔ 
جسٹس کھوسہ نے مزید فرمایاکہ ماتحت عدالتیں تقریبا ہر مقدمے میں پھانسی کی سزا سناتی ہیں۔مقدمہ بریت کا ہوتا ہے لیکن ٹرائل کورٹ عمر قید کی سزا سنا دیتی ہے۔ ججز کیس کو بغیر پڑھے ہی فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ایسے لوگوں کو نیند کیسے آتی ہے ۔ کیا انہیں کوئی ڈر خوف نہیں کہ خدا کو بھی جواب دہ ہوناہے۔ اگر ماتحت عدلیہ نے یہی کچھ کرنا ہے اور انصاف اعلی عدلیہ نے ہی فراہم کرنا ہے تو ماتحت عدلیہ کو بند کر دینا چاہیے ۔اگر انصاف نہیں ملتا تو منصف کو کرسی پر بیٹھنے کا بھی کوئی حق نہیں۔ 
یہ وہ چند خامیاں ہیں جو سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج نے خود بتائیں ہیں لیکن ہمارے عدالتی نظام کی برائیاں اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ یوں کہہ لیں کہ ہمارا عدالتی نظام گل سڑ چکا ہے۔ اگرچہ اعلی عدالتوں سے تھوڑا بہت انصاف ملتا ہے لیکن جب تک انصاف ملتا ہے تب تک لوگوں کی زندگیاں بیت چکی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ماضی قریب میں سپریم کورٹ سے ایک عمر قید کے ملزم کو بے گناہ قرار دے کر بری کردیا ۔ جب اسکی بریت کے آرڈر متعلقہ جیل میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ تو دو سال قبل ہی وفات پاچکا ہے۔ اسطرح کی بے شمار مثالیں ہیں جس میں بے گناہ قیدی کئی دہائیوں تک قیدوبند کی سعوبتیں برداشت کرتے ہوئے بالآخر ملک کی اعلی عدلیہ سے بے گناہ قرار دے دیے جاتے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ جو ناحق سزا انہوں نے کاٹی اسکا ذمہ دار کون ہے؟ جھوٹا پرچہ کاٹنے والا، جھوٹی گواہی دینے والایا جھوٹی سزا دینے والا؟ ہمارے عدالتی نظام کی سب سے بڑی خرابی تو یہی ہے کہ کسی ملزم کو بری کرتے ہوئے الزام لگانے والے کو کوئی سزا نہیں سنائی جاتی۔جھوٹی تفتیش کرنے والے پولیس افسر کو کچھ نہیں کہا جاتا۔ ٹرائل کورٹوں میں جھوٹی گواہیوں کی بنیاد پر غلط سزائیں دینے والے ججوں سے کوئی باز پرس نہیں کی جاتی۔ یہ وہ سب سے بڑی خامی ہے جس سے شریر لوگ فائدہ اٹھاتے ہوئے بے گناہ اور شریف لوگوں کو پھنساتے ہیں اور مالی فوائد حاصل کرتے ہیں۔ 
دراصل ہمارے عدالتی نظام کو اوورہالنگ کی ضرورت ہے جس کے لئے سب سے ضروری امر یہ ہے کہ اگر کسی کیس میں بریت دی جائے تو الزام لگانے والے کو سزا دی جائے ۔ جھوٹی گواہی دینے والے والوں کے لئے عمر قید کی سزا رکھی جائے تو زیادہ فائدہ مند ہوگا۔ مزید یہ کہ غلط پرچہ کاٹنے اور غلط تفتیش کرنے والے پولیس افسر کو بھی سزاوار ٹھہرایا جائے توہمارا عدالتی نظام سیدھی ڈگر پر آجائے گا ۔ 

Asia Bibi Case and Supreme Court's Decision

آسیہ بی بی کیس اور سپریم کورٹ کا فیصلہ
(بلاگ شائع شدہ دنیا نیوز ٹی وی ویب سائٹ)
قانون کی کتابوں میں اکثر دیکھا ہے کہ انصاف کی دیوی کے ہاتھ میں ترازو ہوتا ہے مگر اسکی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے ایسا اسلئے ہوتا ہے تاکہ انصاف کرنے والا بلا امتیاز رنگ و نسل و مذہب اور امیری غریبی دیکھے بغیر فیصلہ کرے تاکہ کوئی بے گناہ پھانسی پر نہ چڑھ جائے ۔ اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے آئیے دیکھتے ہیں کہ آسیہ بی بی کیس میں ملک کی اعلی عدلیہ نے واقعی میزان درست تولا ہے یا پھر کوئی دباؤ قبول کرتے ہوئے ملزمہ کو رعائیت دی گئی ہے جیسا کہ مذہبی جماعتوں کی طرف سے دعوی کیا جا رہا ہے۔ 
31اکتوبر 2018ء کو جب آسیہ بی بی کیس کا فیصلہ آیا تو سب سے پہلے ٹویٹر پر فیصلے کا انگریزی میں لکھا ہوا پہلا صفحہ پڑھا ۔ پڑھ کر ایک جھٹکا سا لگا کہ کیا اب سپریم کورٹ کو بھی اپنا ایمان ظاہر کرنے کے لئے اپنے فیصلوں میں کلمہ ء شہادت کا سہارا لینا پڑے گا۔ خیر بھلا ہو چیف جسٹس صاحب کا جنہوں نے آسیہ بی بی کیس کے فیصلے کا انگریزی اور اردو میں ترجمہ کروا کر سوشل میڈیا پر پھیلانے کی اجازت دی تاکہ مسلمان خود فیصلہ پڑھ کر جانچیں کہ آیا فیصلہ درست ہے یا غلط۔
آسیہ بی بی کیس کا فیصلہ پڑھنے سے قبل حیران تھا کہ سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ کی سزا ہافتہ عورت کو سپریم کورٹ نے کیسے باعزت بری کر دیا۔ لیکن جوں جوں فیصلہ پڑھتا گیا تو خیالات بدلتے گئے اور ایک مقام ایسا آیا کہ میں سوچنے لگا کہ سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ نے ایک بے گناہ کو کیسے مجرم ڈکلئیر کر دیا تھا۔ آئیے جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے کن بنیادوں پر آسیہ بی بی کو توہین رسالت کے الزام سے بری کیا ہے ؟
فیصلے کے آغاز میں قرآن و حدیث سے یہ ثابت کیا گیا کہ توہین رسالت کے مرتکب افراد سزائے موت کے حقدار ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا کہ اس قانون کو ذاتی مفاد کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ مشال خان کے کیس میں کیا گیا۔ ایک سابقہ کیس کا حوالا دیا گیا کہ کیسے ایک مسلمان اکرم نامی شخص نے ایوب مسیح کے پلاٹ پر قبضہ کر کے اس پر توہین رسالت کا الزام لگایا۔1960سے تاحال توہین رسالت کے الزام میں 62لوگوں کو مقدمہ کا فیصلہ ہونے سے قبل ہی موت کے گھاٹ اتارا جاچکا ہے۔ اس ساری تمہید کے بعد مقدمہ ہذا کی تفصیل شروع ہوتی ہے۔ یہ مقدمہ زیادہ تر چار سے پانچ لوگوں کے گرد گھومتا ہے۔ شکایت گزار قاری محمد سلام، ملزمہ آسیہ بی بی، گواہان استغاثہ دو بہنیں معافیہ بی بی،اسماء بی بی اور کھیت کا مالک ادریس۔قصہ مختصر یہ کہ ننکانہ صاحب کے گاؤں اٹاں والی میں ملزمہ اور دونوں بہنیں ایک فالسے کے کھیت میں مورخہ 14.06.2009کو فالسہ چن رہی تھیں کہ بات پانی پلانے سے شروع ہوئی اور توہین رسالت تک جا پہنچی۔ چند روز بعد ایک پنچائت اکٹھی کی گئی جہاں بقول استغاثہ ملزمہ نے اقرار جرم کیا (اسی اقرار جرم کا مذہبی جماعتیں شور مچارہی ہیں)۔وقوعہ کے تقریباََ پانچ روز بعد مقدمہ کا اندراج کیا گیا۔ ملزمہ کو سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ نے مجرم ڈکلیر کیااور یوں کیس سپریم کورٹ پہنچا جہاں اسکی حتمی شنوائی ہوئی۔ اسکے بعد مقدمہ میں جو سقم یاجھول سامنے آئے ان کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جن میں سے چیدہ چیدہ درج ذیل ہیں۔ 
پہلا یہ کہ وقوعہ کے روز کھیت میں پچیس سے چھتیس عورتیں کام کررہی تھی مگر الزام صرف دو نے لگایا۔ دوسرا، مقدمے کا اندارج فورا نہیں کروایا گیا بلکہ پانچ روز کی سوچ بچار کے بعد ہوا۔ تیسرا، مقدمے کی تحریر ایک وکیل نے لکھی جسکا نام شکایت گزار قاری محمد سلام کو یاد نہیں۔ چوتھا، عوامی اجتماع (جرگہ ) جس میں آسیہ بی بی نے عوامی دباؤ کے تحت اقبال جرم کیا، کس جگہ اور کس وقت ہوا استغاثہ کے گواہان کے بیانات میں تضاد ہے۔پانچواں، توہین رسالت کے مقدمہ میں تفتیشی آفیسر کم از کم ایس پی رینک کا ہوتا ہے مگر مقدمہ ہذا کی ابتدائی تمام تفتیش ایک سب انسپکٹر نے کی جوکہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔ چھٹا، شکایت گزار اور گواہان استغاثہ نے پانی پلانے کے جھگڑے کا کہیں بھی ذکر نہیں کیا جسکا احوال دوران سماعت تفتیشی افسراور کھیت کے مالک کے بیانات پر سامنے آیا ۔ساتواں، کھیت کے مالک محمد ادریس کا ایف آئی آر میں کوئی ذکر نہیں مگر ایف آئی آرکے پندرہ روز بعد ایک نئی کہانی گھڑی گئی اورجائے وقوعہ پر کھیت کے مالک کی انٹری ڈالی گئی۔آٹھواں، عوامی اجتماع یعنی جرگہ میں شرکاء کی تعداد اور آسیہ بی بی کو جرگہ میں کون لایا اس بارے تمام گواہان کے بیانات میں تضاد ہے۔نواں، مقدمہ دونوں بہنوں معافیہ اورا سماء بی بی جو جائے وقوعہ پر موجود تھی کی مدعیت میں دینے کی بجائے قاری محمد سلام جو کہ انکی مذہبی استاد کا خاوند ہے اسکی مدعیت میں درج کروایا گیا جبکہ وہ جائے وقوعہ پر موجود ہی نہیں تھا۔ دسواں، تفتیشی ایس پی نے جائے وقوعہ کا معائنہ کیا اور نہ ہی گواہان کے بیانات خود قلم بند کیے مزید یہ کہ ابتدائی تفتیش ایک سب انسپکٹر نے کی بعدازاں ایس پی کے سپرد کی گئی۔ گیارہواں، آسیہ بی بی کو کس نے پولیس کے حوالے کیا؟ اس بارے میں بھی گواہان کے بیانات میں واضح تضاد ہے۔ 
چیف جسٹس کے فیصلے کے بعد جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ کی طرف سے اتفاقی رائے بھی دی گئی ہے جس میں انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے مقدمہ میں پائے جانے والے تمام جھولوں کی مزید وضاحت کی ۔ فیصلے کے آخر میں انہوں نے سن 628 ہجری میں حضور اکرم ؐاور عیسائی وفد کے درمیان طے پانے والا ایک معاہدہ میثاق حقوق جسے عیسائی سینٹ کیتھرین کا معاہدہ کہتے ہیں کا بھی ذکر کیاجس میں حضور ؐنے عہد کیاتھا کہ تاقیامت عیسائی اقلیت کا تحفظ کیا جائے گا۔ بدقسمتی ہے کہ اس مقدمہ میں ناموس رسالت کے نظریے کو ذاتی مفاد کے لئے استعما ل کیا گیا اور آپؐ کا وہ عہد جو آپ نے عیسائی وفد سے کیا تھا اسکی پاسداری نہیں کی گئی ۔آخر میں شیکسپئر کے ناول کنگ لئیر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ اگرچہ عربی زبان میں لفظ آسیہ کا مطلب گنہگار ہے مگر زیر نظر مقدمہ میں گناہ کرنے سے زیادہ گناہ کا شکار نظر آتی ہے۔ لہذا سزائے موت کو ختم کرتے ہوئے اور شک کا فائدہ دیتے ہوئے آسیہ بی بی کو تمام الزاممات سے بری کر دیا گیا۔ 

kia CM Punjab Na-ahal ho jain gay?

کیا وزیراعلیٰ پنجاب نااہل ہوجائیں گے؟
وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کا نام جیسے ہی پنجاب کی وزارت عظمی کے لئے نامزد کیا گیا انکے ستارے گردش میں آگئے تھے۔ ان پر قتل کے مقدمے میں ملوث ہونے کے الزامات سامنے آئے جو بعد ازاں جھوٹے ثابت ہوئے۔ لیکن وزارت عظمی کی گدی پر بیٹھنے کے بعد موصوف ایک بار پھرالزامات کی زد میں آگئے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ اب کی بار جو معاملہ سامنے آیا ہے وہ جھوٹا نہیں ہے بلکہ حقیقت پر مبنی ہے اور پچھے کئی دنوں سے میڈیا اور سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے یہاں تک کہ اس معاملے پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی سوموٹو نوٹس لے لیا ہے اور سپریم کورٹ میں اسکی سماعت بھی شروع ہوچکی ہے۔ یہ معاملہ دراصل چار اشخاص خاور مانیکا ( خاتون اول بشری بی بی کے سابقہ شوہر)، ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل، آئی جی پنجاب کلیم امام اور وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کے گرد گھومتا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ بشری ٰ بی بی کے خاتون اول بننے کی خوشی میں انکی بیٹی جو اپنے والد خاور مانیکا کے ساتھ رہتی ہے ، ننگے پاؤں پاکپتن میں بابا فرید کے دربار پر حاضری کے لئے جارہی تھی کہ پولیس کو خبر ملی کہ خاتون اول جارہی ہے تو سیکیورٹی دینے جاپہنچے ۔ پولیس والوں کو جب معلوم ہوا کہ یہ خاتون اول نہیں ہے تو سیکیورٹی دینے کی بجائے انہوں نے خاتون اول کی بیٹی کو تنگ کیا حتی کہ ہاتھ تک پکڑا۔ یہ تمام واقعہ جب ڈی پی او رضوان کے نوٹس میں آیا تو انہوں نے اسکی کوئی انکوائری نہیں کروائی اور نہ ہی کوئی ایکشن لیا۔ ڈی پی او رضوان گوندل کا یہ پہلا قصور تھا۔ اسکے بعد ایک اور واقعہ رونما ہوا جب خاور مانیکا کو ایک ناکے پر روک کر اس سے بدتمیزی کی گئی۔ اس واقعے کی بھی ڈی پی اونے کوئی انکوائری نہیں کروائی جو کہ انکا دوسرقصور تھا۔ دونوں معاملات کس طرح وزیراعلی پنجاب کے نوٹس میں آئے یہ حقیقت ابھی افشاں نہیں ہوئی ۔تاہم جیسے ہی یہ واقعات وزیراعلی کے نوٹس میں آئے انہوں نے ڈی پی او کو اپنے دفتر طلب کیا جہاں انکے دوست احسن جمیل گجر جوکہ خاتون اول بشریٰ بی بی کی سہیلی فرح کے خاوند بھی ہیں، موجود تھے۔ اس میٹنگ کے بعد رات کو ایک بجے آئی جی پنجاب کے طرف سے رضوان گوندل کو انکی ذمہ داریوں سے سبقدوش کرکے او ایس ڈی بنا دیا گیا۔ جیسے ہی ڈی پی او کی سبقدوشی کا نوٹی فکیشن جاری ہوا میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھونچال آگیا ۔ اگر ان واقعات کے کردار کوئی عام شخصیات ہوتیں تو اتنا بھونچا ل نہ آتا لیکن چونکہ اس واقعہ میں خاتون اول، اسکی بیٹی اور سابقہ شوہر کا نام آرہا تھا اس لئے سب سے زیادہ ہاٹ خبر بن گئی۔ جیسے جیسے خبر پھیلتی گئی تنقید کے تیروں کی سمت وزیراعلی پنجاب کی طرف مڑتی گئی ۔یہاں تک کہ معاملہ سپریم کورٹ جا پہنچا ہے جہاں کم از کم یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ وزیر اعلی پنجاب اپنے پہلے ٹیسٹ کیس میں ناکام ہوگئے ہیں کیونکہ ڈی پی او رضوان گوندل کو او ایس ڈی بنوانے میں وہ براہ راست ملوث ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کیس کی سماعت کے دوران ججز نے عدالتی معاون مخدوم علی خان سے معاونت طلب کی ہے کہ وزیراعلی پنجاب نے پبلک آفس ہولڈر ہوتے ہوئے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہے تو کیا انکو آرٹیکل 62(1)Fکے تحت نااہل کیا جاسکتا ہے۔ اب کیس کی اگلی سماعت سوموار کو ہوگی جس میں خاورمانیکا کے ساتھ ساتھ وزیراعلی پنجاب کوبھی طلب کیا گیا ہے ۔جہاں انکو جواب دہ ہونا پڑے گا کہ انہوں نے اپنا سیاسی اثرورسوخ کیوں استعمال کیا۔ اگرچہ صاف نظر آرہا ہے کہ وزیراعلی پنجاب اس کیس میں پھنس چکے ہیں اور آرٹیکل 62(1)Fکے تحت تاحیات نااہل قرار دیے جاسکتے ہیں مگر ٹھہریے یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ کوئی حتمی نتیجہ اخذکرنے سے پہلے تصویر کا دوسرا پہلو بھی دیکھ لیتے ہیں۔ ایڈیشنل آئی جی انویسٹی گیشن ابوبکرخدابخش جو کہ ایک ایماندار آفیسر گردانے جاتے ہیں وہ بھی عدالت میں پیش ہوئے ۔ انہوں نے حلفاََ کہا کہ انکی انکوائری میں ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کئی معاملات میں غلط بیانی کے مرتکب پائے گئے ہیں۔ مثلاََ خاتون اول کی بیٹی اور انکے سابقہ شوہر خاور مانیکا کے ساتھ پولیس ملازمان کی بدتمیزی والا معاملہ انہوں نے اپنے سینئر آفیسران سے چھپایا اور ان سے غلط بیانی بھی کی۔تصویر کا ایک رخ دیکھیں تو وزیراعلی ٰ کی نااہلی پکی نظر آتی ہے۔ لیکن جب تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں تو عیاں ہوتا ہے کہ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کو تاحیات نااہل نہیں کیا جائے گا۔ اسکی دو وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ کیس کا اصل کردار ڈی پی او رضوان گوندل خود جھوٹ اور غلط بیانی کا مرتکب پایا گیاہے۔ دوم، عثمان بزدار نہ صرف سیاستدان نیا ہے بلکہ وزیراعلی بھی پہلی دفعہ منتخب ہوا ہے ۔مزید یہ کہ اسکو حلف اٹھائے ابھی چند دن ہی گزرے ہیں۔ لہذا اعلی عدلیہ انکو نااہل کرنے کی بجائے کم ازکم ایک موقعہ ضرور دے گی۔ بادی ء النظرمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کیس کا فیصلہ اس سے ملتا جلتا ہی آئے گا تاہم یہ طے ہے کہ وزیراعلی پنجاب اپنے پہلے ٹیسٹ کیس میں ناکام ہوگئے ہیں۔ 

Loha Garam he...

لوہا گرم ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک وڈیو دیکھی جس میں برکت مارکیٹ لاہور کا رہائشی ایک کم عمر بچہ اپنی لرزتی ہوئی آواز میں ہجوم کے پاس کھڑا ہوکر غلیظ ترین گالیاں دیتے ہوئے وزیراعظم پاکستان کو للکار رہا ہے۔ ایسی ہی کئی اور وڈیوز آجکل سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہیں۔ ان وڈیوز کو دیکھ کر سوال اٹھتا ہے کہ ہمارے بچوں کو یہ سب کچھ کون سکھا رہا ہے۔ وہ بچے جنکو یہ تک نہیں معلوم کہ غسل کیسے کیا جاتا ہے وہ لوگوں کو گستاخ رسول ہونے کے فتوے جاری کر رہے ہیں اور وزیراعظم کو للکار رہے ہیں کہ فلاں کو چھوڑ دیا تو تمہارا حشر دیکھنا کیا ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں سپریم کورٹ سے آسیہ بی بی کیس کا فیصلہ آیاتوہمارے شدت پسند مذہبی رہنماؤں کی کال پر ہمارے شدت پسند مذہبی بھائیوں نے سارے میں ملک میں آگ لگا دی۔ تین چار روز تک ملک مفلوج رہا۔ لوگ تو کجا ہمارے ریاستی ادارے تک سہمے رہے کہ اب کیا ہوگا۔ جب معاملہ انتہا کو پہنچا اور شدت پسندوں نے معزز ججوں کو قتل اور پاک فوج میں بغاوت کے فتوے جاری کیے تو ریاستی اداروں کے سربراہان کو ہوش آیا کہ اگر اب بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہے تو خدانخواستہ ملک خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا۔ خیر وزیراعظم کا قوم سے اچانک خطاب اور پھر بیک ڈور مذاکرات رنگ لائے اور شدت پسندوں اور حکومت کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوئے ۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی شدت پسندی ہمارے معاشرے میں کیسے در آئی ہے اور اسکا تدارک کیونکر ممکن ہے؟تو اسکا سادہ سا جواب یہ ہے کہ دہائیوں سے ہم نے اداروں کی بجائے شخصیتوں کو مضبوط کیا ہے۔ جو بھی حکومت میں آیا جیبیں بھرنے کے لئے آیاجسکے لئے ہر ممکن ذرائع استعمال کیے گئے۔ اپنی مرضی کے بندے بھرتی کیے گئے۔ اداروں کے سربراہان ایسے لگائے جاتے رہے جو ہاتھ باندھے سربستہ کھڑے رہیں اور چوں تک نہ کریں۔ تمام اداروں میں ترقیاں بھی میرٹ کی بجائے سیاسی بنیادوں پر ہوتی رہیں تو ایسی صورت حال میں ابن الوقتوں کی ایسی ظفر موج تیار ہوئی جو اپنی تفویض کردہ ذمہ داریاں ادا کرنے کی بجائے چاپلوسی سے کام نکلوانے کو ترجیح دیتی ہے۔ پولیس کا محکمہ جس نے ریاست میں لاء اینڈ آرڈر کو یقینی بنانا ہوتا ہے کی ہرسیٹ پر سفارشی اور سیاسی لوگ براجمان ہیں اور جو دیانتداراور کام کرنے والے ہیں وہ دہائیوں سے کھڈے لائن لگے ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ ہمارے سیاستدان بھی اپنے سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر ایسے شدت پسندوں کو استعمال کرتے ہیں۔ کبھی ووٹ کے حصول کے لئے تو کبھی اپنے مخالف کو دبانے کے لئے۔ ہمارا ماضی گواہ ہے کہ ہمارے سیاستدان شدت پسندوں کو اپنی انتخابی مہمات میں اپنے ہمراہ لیکر ریلیوں میں شرکت کرتے رہے اور جب حکومت میں آتے تو انکی مکمل سپورٹ کرتے رہے۔ جب سیاستدان ہی شدت پسندوں کو اتنی کھلی چھوٹ دیں گے تو پھر وہ ریاستی اداروں کو کسی خاطر میں نہیں لائیں گے۔لہذا وہ من موجی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آسیہ بی بی کیس کا جب فیصلہ آیا تو شدت پسند اپنے مضموم مقاصد کے حصول کے خاطر سڑکوں پر آگئے ، نظام زندگی مفلوج کردیااور عوامی املاک کو نذر آتش کرتے رہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان پرتشدد مظاہروں کے دوران عام لوگوں کی جو املاک جلائی گئیں ان کا مداوا کون کرے گا۔ اگر حکومت ان نقصانات کا مداوا کرتی ہے تو دوسرا سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ شدت پسندوں نے جو املاک جلائیں اسکا مداوا عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے کیوں کیا جارہا ہے؟ذمہ دارتو وہ ہیں جنہوں نے املاک جلائیں تو سزا عوام کو کیوں دی جارہی ہے ؟ مزید یہ کہ ان شدت پسند گروہوں کے عام کارکن گرفتار کیے جاچکے ہیں یا کیے جارہے ہیں لیکن جن لوگوں نے انکو تشدد پر اکسایا انکے ساتھ حکومت معاہدے کرچکی ہے۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ کینسر کی جڑ کو ختم کرنے کی بجائے کینسر سے متاثرہ اعضاء کو کاٹا جارہا ہے۔ حکومت وقت ان لوگوں کو گرفتار کیوں نہیں کرتی جو اس تمام تر بدامنی اور لاقانونیت کے ذمہ دار ہیں؟تو جناب اصل بات یہ ہے کہ پچھلی حکومتوں کی طرح ہماری نئی حکومت بھی ان شدت پسندوں سے ڈر گئی ہے۔تاہم جیسے نئی نویلی دلہن ظالم سسرال سے وقتی طور پر سمجھوتہ کرلیتی ہے شاید حکومت وقت کی بھی یہی سوچ ہے۔ اگرسابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر گامزن ہے تو پھر یاد رکھیں شدت پسندی کا یہ الاؤ بظاہر بجھ گیا ہے لیکن اندرون راکھ کوئلے ابھی بھی دہک رہے ہیں جنکو ذرا سا بھی ایندھن میسر آیا تو ایک بڑے الاؤ کا روپ دھار لیں گے اور پاکستان کا امن و سکون برباد کردیں گے۔ جس ملک میں امن و شانتی نہیں ہوتی وہاں ترقی بھولے سے بھی قدم نہیں رکھتی ۔ لہذا ضروری ہے کہ تمام ادارے اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے جلاؤ گھراؤ کے ذمہ داران کو قرار واقعی سزائیں دلواتے ہوئے متاثرین کو پورا پورا معاوضہ دلوائیں تاکہ آئندہ سے شدت پسندوں کو نصیحت ہوجائے کہ جیسا کرو گے ویسا بھر وگے۔ ابھی وقت ہے ، لوہا گرم ہے ، جس شکل میں ڈھالو گے ڈھل جائے گا۔ لیکن اگر مزید تاخیر کی گئی تو پھر شدت پسندی کو روکنا ممکن نہ رہے گا۔ 

Mufadat ki Jang

مفادات کی جنگ
وزیراعظم عمران خان اپنی ٹیم کے ہمراہ دو روزہ دورے پر سعودی عرب پہنچ چکے ہیں جہاں وہ سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کرنے کے ساتھ ساتھ سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز سے دوطرفہ مزاکرات بھی کریں گے۔ وزیراعظم کا ایک مہینے میں سعودی عرب کا یہ دوسرا اور انتہائی اہم دورہ ہے۔ اس سے قبل کئے گئے دورے میں حکومتی ترجمان نے بلند وبانگ دعوے کئے تھے کہ سعودی عرب عرب پاکستان میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرے گا تاہم اپوزیشن نے اس دورے کو ناکام قرار دیا جو کہ بعدازاں سچ ثابت ہوا کیونکہ اگر سعودی عرب انتہائی کٹھن معاشی حالات میں پاکستان کی مدد کرتا تو پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرضے کی اپیل نہ کرنی پڑتی ۔ اب ایک مرتبہ پھر ہاتھوں میں کشکول لئے حکومت پاکستان کی نظریں سعودی عرب پر گڑیں ہوئی ہیں کہ شاید اس بار کوئی امید برآئے۔
وزیراعظم کے سعودی عرب کے حالیہ دونوں دوروں کے پس منظر کو سمجھا جائے تو حالات زیادہ کھل کر سامنے آئیں گے۔ سابقہ دور حکومت میں سعودی عرب نے پاکستان سے یمن کی جنگ کے لئے فوجی تعاون مانگا تھا تاہم پاکستان کی طرف سے فوجی تعاون کی بجائے اس بات کی یقین دہانی کروائی گئی کہ اگر کسی نے حملہ کیا تو سعودی عرب کا دفاع کیا جائے گا۔ پاکستان کے اس واضح انکار سے پاک سعودی تعلقات میں دراڑیں پڑ گئیں اور تعلقات تاریخ کی نچلی ترین سطح پر آگئے تھے۔ عمران خان کے مسند اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد حکومت کو معلوم ہوا کہ خزانہ بالکل خالی ہے اورتین ہزار ارب روپوں کے قرضے اژدھوں کی طرح منہ کھولے کھڑے ہیں تو وزیراعظم نے دوست ممالک سے مدد حاصل کرنے کی ٹھانی۔ پہلا دورہ سعودی عرب کا کیا گیا ۔اگرچہ استقبالیہ شاندار تھا مگر حکومتی دعوؤں کے برعکس نتیجہ صفر نکلا کیونکہ سعودی عرب نے اگر مدد کی ہوتی تو پاکستا ن کو آئی ایم ایف کے آگے اپنا کشکول رکھنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔اور نہیں تو کم از کم پاکستان کو ادھار تیل دے کر پاکستان کی معاشی مشکلات کو گھٹایا جاسکتا تھا ۔
تاہم پلوں کے نیچے سے اب تک کافی پانی بہہ چکا ہے ۔استنبول میں سعودی سفارت خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سے سعودی عرب بین الاقوامی سطح پر انتہائی دباؤ اور تنہائی کا شکار ہے ۔سعودی عرب نے جو سرمایہ کاری کانفرنس بلائی ہے اس میں بیشتر یورپی ممالک اور میڈیا کے نمائندوں نے شرکت سے انکار کردیا ہے ایسی صورتحال میں پاکستان کے لئے سنہری موقع ہے کہ سعودی عرب سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرے۔ وزیراعظم کے پہلے دورے کے دوران سوالی پاکستان تھا مگر سعودی عرب نے دھتکار دیا ۔ لیکن دوسرے دورے کے وقت حالات بالکل الٹ ہیں۔ اب سعودی عرب سوالی بن کر کھڑا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر دباؤ سے نکلنے کے لئے اسکی مدد کی جائے۔ ایسی صورتحال میں پاکستان کو سعودی عرب کو دھتکارنا نہیں چاہیے۔ لوہا جب گرم ہو تو جو چوٹ لگتی ہے وہ زیادہ اثر رکھتی ہے۔ پاکستان آئی ایم ایف کے آگے کشکول رکھ کر جو شرمندگی برداشت کرنی تھی کر چکا ہے ۔ لہذا اب وقت ہے کہ حالات کا پورا پورا فائدہ اٹھایا جائے ۔ سعودی عرب کو جو مدد درکار ہے وہ دی جائے اور بدلے میں ملکی معاشی حالت کو سنبھالا دینے کے لئے امداد اور کم از کم تین ماہ تک کا ادھار تیل لینے کے معاہدے کیے جائیں۔ اسکا فائدہ یہ ہوگا کہ آئی ایم ایف کے پاس بھی نہیں جانا پڑے گا اور مزید یہ کہ حکومت کو مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی ۔ عوام کو کچھ ریلیف ملے گا تو حکومت کو بھی تھوڑا سا سکھ کا سانس نصیب ہوگا۔ 
بین الاقوامی سطح پر دوستیاں کوئی حثیت نہیں رکھتی صرف ملکی مفادات کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ امریکہ کو صحافی جمال خاشقجی کی موت کا کوئی دکھ نہیں ۔ اسے معلوم ہے کہ سعودی عرب یمن کے ساتھ حالت جنگ میں ہے لہذا اسے دفاعی سامان کی اشد ضرورت ہے۔جبکہ دوسری طرف امریکہ کو ریونیو کی ضرورت ہے۔ اسی لئے امریکہ پسِ پردہ سعودی عرب پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ اس سے جنگی جہاز اور دیگر دفاعی سازو سامان خریدے۔ امریکہ کے ہاتھ میں چونکہ تمام یورپی ممالک کی دوڑ ہے لہذا وہ جیسے ہلاتا ہے سب ہلتے جارہے ہیں۔ 
پاک چین دوستی جو کہ فولاد سے زیادہ مضبوط اور ہمالیہ سے اونچی گردانی جاتی ہے مگرحقیقت اسکے برعکس ہیں۔ آئی ایم ایف ایک فیصد شرح سو د پر چار سال کے لئے قرضہ دیتا ہے مگر ہمارے پیارے دوست چین نے سابقہ حکومت کو ساڑھے آٹھ فیصد شرح سود پر ایک سال کے لئے انتہائی مہنگے قرضے دیئے جس پر ہمارے سابقہ حکمران پھولے نہ سماتے تھے۔ تو جناب بین الاقوامی سطح پر دوستیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں ۔ اگر کوئی چیز معنی رکھتی ہے تو وہ ہے ملکی مفاد ۔ جس طرح سعودی عرب، امریکہ ، چین اور دیگر تمام ممالک کو اپنا اپنا مفاد عزیز ہے اسی طرح پاکستان کو بھی اپنامفاد دیکھنا چاہیے۔ بلاشبہ ہماری فوج مکہ اور مدینہ کی حفاظت کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے لیکن اگر ہماری عوام اور فوجیوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہوگا اور ہمارے فائٹر طیاروں میں ڈالنے کو تیل ہی دستیاب نہیں ہوگا تو ہم مکہ و مدینہ کی حفاظت کرپائیں گے اور نہ ہی سعودی حمایت میں بول سکیں گے کیونکہ جب اپنے گھر میں فاقے ہوں تو رشتہ داروں کی لڑائیوں سے کوئی سروکار نہیں رہتا۔ 

اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں۔

اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں۔

پاکستان میں سیاست ایک ایسا کھیل ہے جس کے کوئی طے شدہ اصو ل نہیں ۔صرف ذاتی مفادات کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اگرچہ عوامی خدمت اور اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے کے بلندوبانگ دعوے کیے جاتے ہیں لیکن جب فیصلے کا وقت آتا ہے تو عوامی سیاست کی بجائے مفاداتی سیاست آڑے آجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام نصف صدی سے زائد عرصے سے غربت کی چکی میں پس رہی ہے اور حکمران عوامی پیسوں پر نہ صرف خود عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں بلکہ اپنے بچوں کی زندگیاں بھی سنوار چکے ہیں۔ پیچھے رہ گئی عوام تو اسکا کوئی پرسان حال نہیں۔ 
سابقہ دور حکومت میں جب عمران خان نے ڈی چوک میں دھرنا دیا تھا تو حکومت لڑکھڑا چکی تھی ۔ اس مشکل صورتحال میں اگر پیپلز پارٹی ن لیگ کو سہارا نہ دیتی تو حکومت کا چند دن بھی ٹک پانا ممکن نہ رہتالیکن پیپلز پارٹی کی علی الاعلان حمایت کی بدولت عمران خان کا دھرنا ناکام ٹھہرا۔ سیاست بھی عجب کھیل ہے ایک طرف پیپلز پارٹی ن لیگ کی حمایت میں کھڑی ہوئی تھی تو دوسری طرف زرداری کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لئے ن لیگ انکے خلاف نیب کے کیسز کھلوا رہی تھی ۔شاید ن لیگ کو یقین تھا کہ اگلے پانچ سال بھی انہی کی حکومت ہوگی لہذا سابقہ حکمرانوں نے حالات کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لئے زرداری کے خلاف کرپشن کے کیسز کھلوائے۔شریف خاندان نے اپنی روایتی سیاست کا کھیل جاری رکھا اور پیپلز پارٹی کے علاوہ پی ٹی آئی کے لیڈروں کے خلاف بھی بے شمار مقدمے درج کروائے تاکہ بوقت ضرورت کام آئیں۔ 
حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ سابق حکمران دوسروں کے خلاف کنواں کھود رہے تھے مگر برا ہو پانامہ سکینڈل کا جس نے شریف خاندان کی سیاست کا جنازہ نکال دیا۔ میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد حالات ن لیگ کے کنڑول سے باہر ہوگئے ۔ اسی دوران ہی نیب کا چیئرمین ایک ریٹائرڈ جج کو لگا کر شریف خاندان نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارلی۔ کیونکہ اس نے آتے ہی میرٹ پر تحقیقات شروع کردیں جسکی بدولت احد چیمہ اور فواد حسن فواد جیسے لوگ بھی گرفت میں آئے اورپاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے طاقتور ترین سابق وزیراعلی المعروف خادمِ پنجاب کی گرفتاری کی راہ ہموار ہوئی ۔
حالات نے مزید پلٹا کھایا اور زرداری اور شریف خاندان کی امیدوں کے برعکس اقتدار کا ہما عمران خان کے سر پر جا بیٹھا جو سیاست میں ہی اس لئے آیا تھا تاکہ عوام کو کرپٹ سیاستدانوں سے نجات دلائے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ حزب اختلاف کی دونوں بڑی جماعتوں کے سربراہان کو ملک کی اعلی عدالتوں میں کرپشن کے بڑے بڑے مقدمات کا سامنا ہے۔ دوسری طرف وزیراعظم کی کرسی پر ایک ایماندار اور ضدی شخص براجمان ہے جو کسی بھی صورت حز ب اختلاف کی دونوں جماعتوں کو کسی قسم کا این آراو دینے کو تیار نہیں۔ 
شریف خاندان تو اپنے کھودے ہوئے کنویں میں خود گرے ہیں مگر آصف زرداری کو ان مقدمات میں پھنسانے والا شریف خاندا ن ہی ہے۔اگر شریف خاندان کی حکومت ہوتی تو آصف زرداری کو ان مقدمات کی کوئی پریشانی نہ ہوتی کیونکہ دونوں جماعتیں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں لیکن سب کو معلوم ہے کہ عمران خان نہ تو خود کھائے گا اور نہ ہی کسی کو کھانے دے گا لہذا سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔ احتساب کا عمل جو ں جوں آگے بڑھ رہا ہے اپوزیشن جماعتوں میں اتحاد اسی قدر مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ حالیہ عام انتخابات کے بعد مولانا فضل الرحمن نے آصف زرداری کو پیش کش کی تھی کہ مل جل کر حکومت بنائی جائے مگر زرداری نے وہ پیش کش ٹھکرا دی تھی۔ تاہم اب احتساب کا شکنجہ کسا جارہا ہے توآصف زرداری خود چل کر مولانا فضل الرحمن کے گھر گئے ہیں تاکہ ان کی مدد سے تمام اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کر کے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جا سکے۔ سب کو معلوم ہے کہ یہ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہیں ہوگی کیونکہ حکمران جماعت اکثریت میں ہے مگر یہ وہ سیاسی شعبدہ بازی ہے جس سے حکومت پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے تاکہ اپنے مطالبات منوائے جا سکیں۔ 
عجب طرفہ تماشہ ہے کہ آصف زرداری کے خلاف کرپشن کے مقدمات جن لوگوں نے درج کروائے تھے اب ا نہی کے ساتھ مل کر ہی وزیراعظم پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ انہیں کوئی نیا این آر او دیا جائے۔ بقول میر
میر کیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

پہلے گھر کا گند صاف کریں پھر گلی میں جھانکیے گا۔


پہلے گھر کا گند صاف کریں پھر گلی میں جھانکیے گا۔
سپریم کورٹ میں پاکستانیوں کی بیرون ملک جائیدادوں اور بینک اکاؤنٹس سے متعلق ایک کیس زیر سماعت ہے۔اس کیس میں ایف آئی اے نے حال ہی میں ایک رپورٹ جمع کروائی ہے جسکے مطابق اس وقت تین ہزار پانچ سو ستر پاکستانیوں کے خلاف بیرون ملک جائیدادوں اور بینک اکاؤنٹس کے متعلق تحقیقات ہورہی ہیں۔ اب تک ایک ہزار پندرہ ارب روپے کی غیر قانونی جائیدادیں سامنے آچکی ہیں۔ تاہم اب تک جن پاکستانیوں کے نام سامنے آئے ہیں انکی تعداد آٹھ سو چورانوے ہے جن میں سے تین سو چوہتر افراد ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھاچکے ہیں۔اور جن افراد کے نام سامنے آئے ہیں ان میں اہم سیاسی و سرکاری شخصیات بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنے بیوی ، بچوں اور رشتہ داروں کے نام جائیدادیں بنا رکھی ہیں۔ 

ہر روزبے نامی دار جائیدادوں کے نام لے لے کر الیکٹرانک میڈیا نے عوام میں ایک بے چینی کی لہر پیدا کر رکھی ہے۔ بے چاری عوام یہی سمجھ رہی ہے کہ جن لوگوں کے نام سامنے آرہے ہیں وہ سب چور ہیں۔ عوام ان لوگوں کو بھی کرپشن میں سزایافتہ ایک سابق وزیراعظم کی طرح کا چور گرداننے لگے ہیں۔ جہاں میڈیا اتنی اہم خبر روزانہ کی بنیاد پر نشر کرتا ہے وہاں اسکی یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ عوام کو یہ بتایا جائے کہ ان بے نامی داروں کی اصل حقیقت کیا ہے۔

ایسے لوگ جنکے خلاف بیرون ملک جائیدادیں اور بینک اکاؤنٹس رکھنے کے جرم میں تحقیقات ہورہی ہیں ان میں سیاسی، سرکاری، گلوکار، اداکار ، صنعت کار اور تاجر وغیرہ شامل ہیں۔ اس وقت ایک سو پچاس سے زائد امیر ترین پاکستانی افراد کی جائیدادیں مختلف ملکوں میں سامنے آچکی ہیں جنکی کل مالیت تقریباََ تیس ارب روپے ہے۔ لیکن یہ سب لوگ چور نہیں ہیں۔ ان سب نے کسی کا مال چرا کر بیرون ملک منتقل نہیں کیا۔ سیاسی شخصیات یا ایسے افراد جو کسی بڑے سرکاری عہدے پر فائز رہے انکے بارے میں تو کہا جاسکتا ہے کہ وہ عوام کا پیسہ چرا کر بیرون ملک لے گئے لیکن وہ لوگ جو زندگی بھر کسی سرکاری عہدے پر فائز نہیں رہے وہ اس زمرے میں نہیں آتے۔لہذا ان تمام افراد کوایک ہی چھڑی سے ہانکنا زیادتی ہے۔ 
وہ لوگ جنہوں نے اپنی ذاتی جائیداد بیرون ملک منتقل کی وہ چور کیسے ہوسکتا ہے؟انکا جرم صرف اتنا ہے کہ انہوں نے اپنے ٹیکس کے گوشواروں میں اپنی ان جائیدادوں کا ذکر نہیں کیا لہذا انہوں نے ٹیکس چوری کی ہے۔ ایسے ہی افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے سابقہ حکومت نے ایمنسٹی سکیم متعارف کروائی تھی جس سے تین سو چھیاسی افراد نے فائدہ اٹھایا۔ 
ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ایف بی آر سے پوچھا کہ ان لوگوں کے خلاف مقدمہ کیوں نہیں چلایا گیا تو چیئرمین ایف بی آر نے جواب دیا کہ پاکستان میں مروجہ قوانین کے مطابق ایسے لوگوں کے خلاف مقدمہ چلایا جاسکتا ہے اور نہ ہی ایسے لوگوں کو گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ ایسے لوگوں کو صرف ٹیکس نیٹ میں لایا جاسکتا ہے اور کوئی قانونی کاروائی انکے خلاف عمل میں نہیں لائی جاسکتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ پاکستان کے قانون میں سقم موجود ہیں جن میں ترامیم کی ضرورت ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ پاکستانی قوانین بیرون ملک غیر قانونی طور پر جائیدادیں منتقل کرنے والوں کو روکنے کی بجائے انکی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ بلکہ سابقہ حکومتوں کے چنداعلی عہدے داروں نے تو خود ایسے قوانین متعارف کروائے اور بیرون ملک اپنا کالا دھن منتقل کرکے من موجی کی۔ 
پاکستان کی بائیس کروڑآبادی میں سے ٹیکس دینے والے لوگوں کی تعداد صرف چند لاکھ ہے جوکہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ٹیکس نہ دینے والے اگر چور ہیں تو پھر چند لاکھ لوگوں کو نکال کے باقی سارا پاکستان چور ہے۔ پاکستان میں دولتمند لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہے مگر وہ ٹیکس نہیں دیتے۔ انکی بھی جائیدادیں اوربینک اکاؤنٹس ہیں مگر وہ سرعام گھوم رہے ہیں۔ایسا کیوں؟ ایسا اس لئے ہے کیوں کہ سرکاری اداروں میں کرپشن عام ہے۔ حالت زار یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو سرکاری عہدے دار خود ٹیکس چوری کے بارے میں سروسز مہیا کرتے ہیں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ نقصان کس کا ہورہا ہے۔ ایسے لوگ اگر پکڑ بھی لئے جائیں تو تھانوں اور عدالتی نظام میں ایسی خرابیاں پائی جاتی ہے کہ یہ لوگ صاف بچ نکلتے ہیں۔ لہذا اگر ٹیکس چوری کو روکنا ہے تو پہلے کرپشن کو روکیں ۔
بیرون ملک جائیدادوں اور بینک اکاؤنٹس رکھنے والوں کے خلاف کاروائی بلاشبہ ایک احسن اقدام ہے مگر وہ لوگ جو اندرون ملک اتنی بڑی جائیدادیں رکھتے ہیں لیکن ٹیکس کی ایک پائی بھی جمع نہیں کرواتے انکے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی جاتی؟کیا انہیں کوئی استثناء حاصل ہے۔ بیرون ملک جائیدادیں رکھنے والوں کے متعلق معلومات اکٹھی کرنا، انکی جائیدادوں کو واپس پاکستان منتقل کرنا اور انکے خلاف کوئی مقدمہ درج کرکے انہیں گرفتار کرنے میں بے شمار مشکلات حائل ہیں لیکن اسطرح کے ٹیکس چور جو پاکستان میں موجود ہیں انکے خلاف کاروائی عمل میں لانے میں کیا مشکل درپیش ہے؟پہلے ایسے امیر کبیر پاکستانیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے جنکی بڑی بڑی جائیدادیں پاکستان میں ہی موجود ہیں مگر وہ ٹیکس چوری کرتے ہیں کیونکہ یہ کام بڑی آسانی اور جلدی سے ہوسکتا ہے۔ اسکے بعد بیرون ملک بے نامی جائیدادیں رکھنے والوں کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ پہلے گھر کا گند صاف کریں پھر گلی میں جھانکیے گا۔