قوم کو پیاسا نہیں مرنے دیں گے
آج کل سپریم کورٹ میں زیر زمین پانی نکالنے سے متلعق ایک کیس زیر سماعت ہے جس میں صاف پانی مہیا کرنے والی ملک کی نامور کمپنیاں کٹہرے میں کھڑی ہیں کہ کس طرح انہوں نے برسوں زیرزمین پانی نکال کر اربوں روپے منافع کمایا لیکن ٹیکس کے نام ایک پھوٹی کوڑی بھی خزانے میں جمع نہیں کروائی۔ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
دوران سماعت ہوش ربا انکشافات ہورہے ہیں مثلاََ عدالتی معاون نے بتایا کہ ایک کمپنی کا ایک پلانٹ ہر گھنٹے میں ایک لاکھ لٹر زیرزمین پانی نکالتا ہے۔ ہر گھنٹے اتنی بڑی مقدار میں پانی کے نکالے جانے سے زیرزمین پانی کی سطح گررہی ہے۔پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی مثال لے لیں۔ چند سال قبل کراچی میں زیر زمین پانی ایک سو فٹ پر موجود تھا لیکن ان کمپنیوں کی بدولت اب یہ سطح گر کر چار سو فٹ ہوچکی ہے۔ ایک کمپنی کے نمائندے نے بتایا کہ زیرزمین پانی نکال کر بیچنے سے کمپنی کو ہر سال پندرہ کروڑ اسی لاکھ روپے آمدن ہوئی جبکہ کمپنی پچھلے تیس سالوں سے کام کر رہی ہے۔ اگر اس کمپنی کی پچھلی تیس سالہ آمدن کا حساب لگایا جائے تو یہ تقریبا چار سو پچاس کروڑ بنتی ہے جو ایک بہت بڑی رقم ہے لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو بدلے میں کمپنی نے سرکاری خزانے میں ٹیکس کے نام پر ایک روپیہ بھی جمع نہیں کروایا جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کمپنیوں نے نہ صرف ٹیکس چوری کی بلکہ زیر زمین پانی بالکل مفت استعمال کرکے ملک و قوم کا نقصان کیا۔
سپریم کورٹ کے علم میں جب یہ بات آئی کہ منرل واٹر بیچنے والی کمپنیوں نے زیر زمین پانی بالکل مفت استعمال کی ہے تو معزز جج صاحبان نے انکے وکلاء کو ایک آفر دی ۔ وہ یہ کہ یا تو فی لیٹر ایک روپے ٹیکس ادا کرو ورنہ صنعت بند کر دو۔ لیکن ان نام نہاد صاف پانی مہیا کرنے والی کمپنیوں کے مالکان اس آفر کو بھی قبول کرنے پررضا مند نہیں۔بقول انکے کل کو یہ بھی سوا ل اٹھایا جا سکتا ہے کہ آپ آکسیجن استعمال کررہے ہیں اس پر بھی ٹیکس دو۔ جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ یہ مقدمہ آکسیجن کا نہیں پانی کا ہے۔ پہلے اسکا حساب دیں کیونکہ آپکے کلائنٹ اربوں روپے ہڑپ کر گئے اور ٹیکس ایک کوڑی بھی نہیں دیا۔
منرل واٹر بنانے والی کمپنیاں ایک بوتل پچاس روپے میں بیچ رہی ہیں جبکہ فی بوتل خرچہ صرف پانچ روپے ہے۔ اسطرح فی بوتل آمدن پینتالیس روپے بنتی ہے۔ ان پینتالیس روپوں میں سے یہ کمپنیاں کم از کم دو روپے ٹیکس دینے کو بھی تیار نہیں ۔غضب خدا کا۔اتنی لوٹ مارکے باوجود بھی ٹیکس کے نام پر ایک کوڑی دینے کو رضا مند نہیں۔ ان کا اعتراض یہ ہے کہ ایک روپے فی لٹر کے حساب سے اگر کمپنیاں ٹیکس دیں گی تو انہیں ایک کیوسک پانی پر چار کروڑ بیس لاکھ ٹیکس دینا پڑے گا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کمپنیاں صرف اور صرف اپنا مفاد دیکھ رہی ہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھ رہیں کہ ہر گھنٹے جو ایک لاکھ لٹر زیرزمین پانی نکالا جارہا ہے اور پھر اسکے ویسٹ سے باقی زیر زمین پانی کو آلودہ کیا جارہا ہے اسکا ذمہ دار کون ہے؟ایک تو ٹیکس چوری اور اوپر سے سینہ زوری۔ لیکن ان کمپنیوں کا یہ کھیل اب نہیں چل سکتا۔ اب یا تو یہ ٹیکس دیں گے یا پھر لوٹ مار کا یہ کاروبار بند کریں گے۔
منرل واٹر کے نام پر یہ کمپنیاں جو پانی بیچ رہی ہیں وہ صاف نہیں ہے۔ مزید یہ کہ اس پانی میں منرلز بھی پورے نہیں ہوتے۔ اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ان کے پاس پانی کے معیار کو چانچنے والے آلات ہی نہیں ہیں ۔علاوہ ازیں ان کمپنیوں میں کام کرنے والا عملہ بھی ناتجربہ کار ہے۔ حالت یہ ہے کہ اگر دریائے سندھ کے پانی میں سے بیکٹریاختم کر دئے جائیں تو دریا کا پانی انکے منرل واٹر سے ہزار گنا بہتر ہوگا۔ اور یہی وجہ ہے کہ چیف جسٹس نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسے منرل واٹر نہیں بوتل بند پانی کہا جائے۔مزید براں ڈی جی ماحولیات اور ڈی جی فوڈ اتھارٹی کو ہدایات جاری کیں کہ انکے معیار کو چانچنے کے لئے ٹیمیں تشکیل دی جائیں۔اگر کسی کمپنی کا معیار کم تر ہے تو اسے ایک ماہ کا وقت دیا جائے اسکے بعد بھی درست نہ ہو تواس صنعت کو بند کر دیا جائے۔
پاکستان میں آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے۔ آج سے نہیں بلکہ دہائیوں سے ایسا ہی چل رہا ہے کیونکہ یہ نام نہاد صاف پانی مہیا کرنے والی کمپنیاں آج معرض وجود میں نہیں آئیں بلکہ دہائیوں سے عوام کا خون چو س رہی ہیں۔پلانٹس لگاتے وقت انہوں نے کسی بھی سرکاری ادارے سے باقاعدہ این او سی حاصل کیا اور نہ ہی بعدازاں ایسی کوئی کوشش کی گئی۔ من مرضی سے پلانٹس لگائے، اپنی مرضی کا معیار بنایا،زیر زمین پانی مفت نکالتے رہے ، عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک ہوئے گندے پانی کو منرل واٹر کے نام پر بیچتے رہے اور اب جبکہ سپریم کورٹ نے شکنجہ کسا ہے تو اب بھی حتی الامکان کوشش کررہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح جان بخشی ہوجائے ۔یہی وجہ ہے کہ ملک کے نامور وکیلوں کو بھاری فیسیں دے کر مقدمے کے لئے ہائر کیا گیا ہے ۔ لیکن دوسری طرف سپریم کورٹ نے بھی ان نامور وکلاء پر واضح کر دیا ہے کہ آپ لوگوں نے اپنی بھاری فیسیں وصول کرلی ہیں لیکن ہم بھی قوم کا نقصان نہیں ہونے دیں گے۔ یہ مقدمہ ایک صنعت کے فائدے کا نہیں بلکہ پوری قوم کا ہے ۔ہم قوم کو پیاسا نہیں مرنے دیں گے۔