شاعروں کی لکیریں
لکیر ایک خط، لائن یا کسی کاغذ وغیرہ پرایک لمبے نشان کو کہتے ہیں جسکے معنی خط کے سائز اور سمت کے لحاظ سے بدل جاتے ہیں۔مگر ہم جن لکیروں کا ذکر کریں گے وہ شعراء کی لکیریں ہیں۔ مطلب یہ کہ شعراء ان لکیروں کوکہاں کہاں استعمال کرکے ، کیسے کیسے معنی نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی ہاتھوں کی لکیروں پر نوحہ کناں ہے تو کوئی پتھروں پر لکیریں کھینچ کے بیٹھا ہوا ہے۔ کسی کو ہاتھوں کی لکیروں میں ایک روشن مستقبل نظر آتا ہے تو کوئی ہاتھوں کی لکیروں سے مات کھا گیا ہے۔کوئی مصور کی کھنچی ہوئی لکیروں سے نالاں ہے تو کوئی ان لکیروں میں ہی ڈوبا ہوا ہے۔ غرض یہ کہ مختلف شاعروں نے ان لکیروں کو مختلف رنگوں میں استعمال کیا ہے۔ مثلاََ داغ دہلوی اپنے محبوب کواپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لئے پتھرکی لکیروں کا ذکر کررہے ہیں ۔
لکیر ایک خط، لائن یا کسی کاغذ وغیرہ پرایک لمبے نشان کو کہتے ہیں جسکے معنی خط کے سائز اور سمت کے لحاظ سے بدل جاتے ہیں۔مگر ہم جن لکیروں کا ذکر کریں گے وہ شعراء کی لکیریں ہیں۔ مطلب یہ کہ شعراء ان لکیروں کوکہاں کہاں استعمال کرکے ، کیسے کیسے معنی نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی ہاتھوں کی لکیروں پر نوحہ کناں ہے تو کوئی پتھروں پر لکیریں کھینچ کے بیٹھا ہوا ہے۔ کسی کو ہاتھوں کی لکیروں میں ایک روشن مستقبل نظر آتا ہے تو کوئی ہاتھوں کی لکیروں سے مات کھا گیا ہے۔کوئی مصور کی کھنچی ہوئی لکیروں سے نالاں ہے تو کوئی ان لکیروں میں ہی ڈوبا ہوا ہے۔ غرض یہ کہ مختلف شاعروں نے ان لکیروں کو مختلف رنگوں میں استعمال کیا ہے۔ مثلاََ داغ دہلوی اپنے محبوب کواپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لئے پتھرکی لکیروں کا ذکر کررہے ہیں ۔
سمجھو پتھر کی لکیر اسے
جو ہماری زباں سے نکلا
عازم کوہلی اپنے ماضی و حال سے تنگ آکر اپنے ہاتھوں پر کھچی ہوئی لکیروں کو دیکھ رہے ہیں۔ وہ ہاتھوں کی لکیروں کونوید اور امید کے پیرائے میں بیان کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ہم لکیریں کرید کر دیکھیں
رنگ لائے گا کیا یہ سال نیا
اسکے برعکس عبیدالرحمان ہاتھوں کی لکیروں کے استعمال سے ناامیدی اور مایوسی کا اظہار کررہے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ انہیں کسی اور نے نہیں بلکہ اپنے ہی ہاتھوں کی اندھی لکیر وں نے ہرایا ہے۔
کوئی دماغ سے کوئی شریر سے ہارا
میں اپنے ہاتھ کی اندھی لکیر سے ہارا
جبکہ امیر قزلباش ہاتھوں کی لکیروں کے استعمال سے مایوسی اور امید کے ملے جلے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اگرچہ انہیں اپنے روشن مستبقل کی کوئی امید نہیں لیکن نجومی ابھی بھی اسے امید سحر کی نویدسنا رہے ہیں۔
سنا ہے اب بھی مرے ہاتھوں میں
نجومیوں کو مقدر دکھائی دیتا ہے۔
پروین شاکر نے ہاتھوں کی لکیروں کے استعمال سے منفرد اور جداگانہ معنی دینے کی کوشش کی ہے۔ یہ وہ واحد پاکستانی شاعرہ ہیں جنہیں محبوب کی بے وفائی اور ہاتھوں کے لکیروں کے درمیان کوئی تعلق نظر آتاہے۔
تو بدلتا ہے تو بے ساختہ مری آنکھیں
اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے الجھ جاتی ہیں
عالم خورشید نے زمین پر لکیر کھینچ کر اسے ضد کے معنی دینے کی کوشش کی ہے۔ انکی زمین پر کھنچی ہوئی لکیر پتھر پر لکیر کے متشابہ ہے۔
لکیر کھینچ کے بیٹھی ہے تشنگی میری
بس اک ضدر ہے کہ دریا یہیں سے نکلے گا
آنس معین کی زندگی کی کتاب میں پہلے صفحے پر محبوب کا نام لکھا ہے جس کے نیچے انہوں نے ایک لکیر کھینچ کر محبوب کے نام کو اور نمایاں کردیا ہے۔ لیکن عجیب اتفاق ہے کہ اسکے بعد ساری کتاب خالی پڑی ہے۔ یہاں شاعر نے ایک لکیر سے نمایاں اور واضح کرنے کے معنی اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔
تمہارے نام کے نیچے کھنچی ہوئی ہے لکیر
کتاب زیست ہے سادہ اس اندراج کے بعد
وسیم بریلوی کو مصور کی کھینچی ہوئی لکیروں پر اعتراض ہے جس نے انکے محبوب کی تصویر کشی کی ہے۔ بقول شاعر مصور جتنی بھی کوشش کرلے اسکے محبوب کی انگڑائی والے لمحات کو اپنی تصویر میں مقید نہیں کرسکتا۔یہاں شاعر اپنے برانگیختہ جذبات کے اظہار کے لئے مصور کی کھچی ہوئی لکیروں پر معترض ہے۔
جسم کی چاہ لکیروں سے ادا کرتا ہے
خاک سمجھے گا مصور تری انگڑائی کو
لیکن اس کے برعکس منیش شکلا کو مصور کی کھنچی ہوئی چند لکیریں اس قدر پسند آئی ہیں کہ وہ ان کی گہرائی میں ڈوبے پڑے ہیں۔ ایسامحسوس ہوتا ہے کہ وسیم بریلوی کی نسبت منیش شکلا نے اپنے محبوب کی تصویر ایک اچھے مصور سے بنوائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان لکیروں کے حسن میں ڈوب گئے ہیں۔
چند لکیریں تو اس درجہ گہری تھیں
دیکھنے والا ڈوب گیا تصویروں میں
خالد معین فارغ لمحات میں بے خیالی میں یونہی لکیریں کھینچتے رہے ۔جب بغور دیکھا تو محبوب کی تصویر بن چکی تھی۔یہاں ٹیڑھی میڑھی لکیروں کوبھی شاعر نے کارآمد گردانا ہے۔
لکیریں کھینچتے رہنے سے بن گئی تصویر
کوئی بھی کام ہو، بے کار تھوڑی ہوتا ہے۔