Thursday, March 15, 2018

اختلافِ رائے کو عزت دیجئے


اختلافِ رائے کو عزت دیجئے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف کے منہ پر دوران تقریر سیاہی پھینک دی گئی ۔اگلے ہی دن لاہور کے ایک مدرسہ میں میاں محمد نوازشریف پر جوتا اچھالا گیا۔جہلم میں عمران خان کوایک شخص نے جوتا مارنے کی ناکام کوشش کی جبکہ گجرات میں علیم خان کو جوتا مارا گیا۔ یہ سب کیا ہے؟یہ دراصل پاکستان میں آجکل اختلافِ رائے کے اظہار کا ذریعہ ہے جو کہ اخلاقی طور پر انتہائی گھٹیااور ناپسندیدہ ذریعہ ہے۔ یوں تو جوتے مارنے کا یہ سلسلہ خواجہ آصف سے شروع ہوا ہے تاہم اسکے تانے بانے فیض آباد کے مقام پر ایک مذہبی تحریک کے دھرنے سے جا ملتے ہیں۔یہ مذہبی جماعت تقریباََ بیس یوم اس مقام پر دھرنہ دے کر بیٹھی رہی اور اس دوران اس جماعت کے مقررین نے افواج پاکستان ، عدلیہ ، حکومت وقت اور اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف وہ دشنام طرازی کی کہ خدا کی پناہ ۔دھرنے کے خلاف کریک ڈاؤن کے نتیجے پر جب انتشار پورے ملک میں پھیلا تو عسکری قیادت کو میدان میں کودنا پڑا اور ایک معاہدے کے تحت یہ دھرنا اختتام پذیر ہوا۔ بالآخر حکومت وقت کو ان کے مطالبات مانتے ہوئے ختم نبوت شق میں کی گئی تبدیلی واپس لینا پڑی۔ ’’ختم نبوت ‘‘ کا معاملہ مسلمانان پاکستان کے لئے دکھتی رگ کی حثییت رکھتا ہے۔ جو کوئی اس معاملے کو چھیڑنے کو کوشش کرتا ہے مذہبی طبقہ انکے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ ماضی میں پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر اسی معاملے کو چھیڑنے کی بدولت اپنے گارڈ کے ہاتھوں ہی قتل ہوئے جبکہ ن لیگ کے دور حکومت میں جب اس قاتل کو پھانسی دی گئی تو مذہبی طبقے نے پھر آسمان سر پر اٹھا لیا تھا ۔ آج ن لیگ کی قیادت پر اس مذہبی تحریک کی طرف سے دو بڑے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ اول، ن لیگ کی حکومت نے ممتاز قادری (گورنر سلمان تاثیر کا قاتل)کو پھانسی دی۔ دوئم ن لیگ کی حکومت نے ختم نبوت کی شق کو تبدیل کرنے کی جسارت کی ۔ ان دو بڑے اقدامات کی بدولت اس مذہبی تحریک کے ممبران کی طرف سے خواجہ آصف پر سیاہی پھینکی گئی اور میاں نوازشریف پر جوتا اچھالا گیا۔ تاہم مذہبی طبقے کی طرف سے اختیار کیا جانے والا یہ طریقہ غیراخلاقی ہونے کے ساتھ ساتھ غیر اسلامی بھی ہے کیونکہ نبی اکرمؐپر کوڑا پھینکا گیا۔ آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، حتی کہ طائف کی وادی میں پتھر تک برسائے گئے مگر آپ نے جوابا انکو نازیبا الفاظ تو کجا انکو بددعا بھی نہیں دی بلکہ دعا دی کہ اے اللہ انکو ہدایت دے ۔جبکہ اس مذہبی تحریک کے رہنما ہمیں احادیث سے ڈھونڈ ڈھونڈ کے بتاتے ہیں کہ دیکھیں فلاں صحابی نے گالی دی۔ توگالی دینا جائز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ناموس رسالت کی آڑ میں یہ مذہبی طبقہ تششد د کو ہوا دیکر اپنے ذاتی مفاد ات کا تحفظ کر رہا ہے۔ انکی کوشش ہے کہ ناموس رسالت کے نام پرایک بڑی تعداد کو اپنے پیچھے لگا کر کسی نہ کسی طرح اقتدار کی سیڑھی تک پہنچا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس مذہبی تحریک نے ایک سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لینا شروع کر دیا ہے۔اور یہ کسی حد تک کامیاب بھی ہورہے ہیں۔ اور مزید کامیابیاں حاصل کرنے کے لئے یہ مذہبی راہنما لوگوں کوتششدد پر اکسا رہے ہیں۔ اختلاف رائے انکے نزدیک ایک بری چیز ہے۔ جو لوگ انکے عقائد و نظریات سے متفق نہیں یہ ان پر دشنام طرازی کرتے ہیں اور اپنے چاہنے والوں کو اکساتے ہیں کہ مخالفین کو قتل کرو ، تششدد کرو، انکے منہ پر سیاہی اور جوتا وغیرہ پھینکو۔ان مذہبی راہنماؤں سے میرا صرف ایک سوال ہے وہ یہ کہ نبی اکرم ؐ کی زندگی سے ثابت کریں کہ آپ ؐ نے کبھی تششد د کو ہوا دی ہو یا اختلاف رائے کو عزت نہ دی ہو۔ آپ ؐ کی زندگی کا مکی دورہمیں یہ درس دیتا ہے کہ جب تم مغلوب ہو تو زندگی کیسے گزارنی ہے اور مدنی دور یہ سکھاتاہے کہ جب تم اقتدار میں ہو تو زندگی کیسے گزاری جائے ۔حضور ؐ کی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ آپ ؐ نے نہ صرف اختلافِ رائے کو اہمیت دی بلکہ اپنے سخت ترین مخالفین اور دشمنوں کے لئے سرِعام معافی کا اعلان کیا۔ جبکہ ہم لوگ آج اسی نبی ؐ کے نام پر لوگوں کوقتل کر رہے ہیں ، انکے منہ پر سیاہی ڈال رہے ہیں اور جوتے اچھا ل رہے ہیں۔ یہ ہم کس دین کے پیروکار ہیں۔ ہم کس راہ پر چل پڑے ہیں۔ ہمارے مذہبی و سیاسی راہنماؤں کو مل بیٹھ کر سوچنا ہوگا کہ تششد د اور انتشار کسی مسئلہ کا حل نہیں ہوتا۔ اگر آپکو کسی کی رائے سے اختلاف ہے تو اس کو اہمیت و عزت دیں ناں کہ اسکی جان لے لیں۔ میاں محمد نوازشریف کا آجکل بیانیہ ہے کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘لیکن ووٹ کو عزت دینا ایک سیاسی معاملہ ہے اور ہر شہری کا آئینی و قانونی حق ہے جسے وہ چاہے استعمال کرے یا نہ کرے۔ تاہم اختلافِ رائے کولازمی عزت دیجئے کیونکہ یہ ہمارا اخلاقی، آئینی، قانونی اور اسلامی فریضہ ہے۔