Saturday, March 24, 2018

Insaf ki Frahmi


انصاف کی فراہمی

جنگ عظیم دوئم کے دوران جب جرمن طیارے برطانیہ کے دارالحکومت لندن پر شدید بمباری کررہے تھے تو کسی نے برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کو ان گنت اموات اور معاشی تباہی کے بارے میں بتایا۔ تاہم ونسٹن چرچل نے پریشان ہونے کی بجائے پوچھا کیا ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں اور عوام کو بروقت انصاف مل رہا ہے؟ جواب ملا جی ہاں ، عدالتیں اپنا کام ٹھیک کر رہی ہیں۔ تو چرچل نے کہاخدا کا شکر ہے ۔اگر عداتیں ٹھیک کام کر رہی ہیں تو پھر فکر نہ کریں ۔کچھ بھی غلط نہیں ہوگا۔ بالفرض اگر یہی سوال موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی پوچھے جبکہ پاکستان جنگ کی حالت میں بھی نہیں تو جواب ملے گا کہ نہیں جناب عدالتیں اپنا کام ٹھیک طرح سے سرانجام نہیں دے رہیں ۔انصاف کی فراہمی کا حال تو یہ ہے کہ ملک کاتین دفعہ کے منتخب شدہ وزیراعظم کو نااہل کر دیا گیا اور وہ سڑکوں پر پوچھتا پھرتا ہے کہ مجھے کیوں نکالا؟جبکہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سمیت تمام حکمران پارٹی کو بھی سا بق وزیراعظم کی نااہلی کا یہ فیصلہ منظور نہیں۔ دوسری طرف کسی بھی غریب آدمی کو عدالتوں پر اعتماد نہیں کہ انصاف ملے گا کیونکہ عام تاثر یہی ہے کہ اگر آپ نے کیس جیتنا ہے تو وکیل کی بجائے جج کرلو مطلب جج سے لین دین کر لو۔ بظاہر پاکستان کی عدلیہ ان دنوں فعال نظر آتی ہے تاہم یہ صرف نظر کا دھوکہ ہے۔ملک کی اعلی عدلیہ صرف ان مقدمات پر سوموٹو ایکشن لے رہی ہے جو میڈیا کی زینت بنتے ہیں۔ جو واقعات و مقدمات میڈیا کی توجہ حاصل نہیں کر پاتے وہ عدلیہ کی نظر سے بھی گر جاتے ہیں اس لئے بروقت انصاف کے حصول میں ناکام رہتے ہیں۔ پاکستان کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار صاحب قسمیں کھاتے نظر آتے ہیں کہ آئندہ الیکشن 1973ء کے بعد ملکی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات ہونگے اور مزید یہ کہ احتساب سب کا ہوگا مگر کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں۔ وجہ سادہ سی ہے کہ ستر سال سے عوام کے دلوں میں عدالتوں کے بارے میں یہ تاثر قائم ہے کہ ہماری عدالتوں سے انصاف نہیں ملتا۔ خود چیف جسٹس آف پاکستان نے ایک معروف کالم نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہا کہ میں اپنی عدالتوں کے ہاتھوں مجبور ہوں۔ ججز ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں لیکن مقدمات کی سنوائی نہیں کرتے۔ میں انکو خدا کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ کام کرو۔ ملک کا چیف جسٹس جب خود کہہ رہا ہے کہ میں اپنی عدالتوں کے ہاتھوں تنگ ہوں تو پھر آپ خود اندازہ لگا لیں کہ ملک میں انصاف کی فراہمی کا کیا حال ہوگا۔ ایک طرف جج صاحبان کام کرنے کو تیار نہیں تو دوسری طرف عدالتوں میں ججز کی تعداد بھی پوری نہیں جبکہ کیسوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ججز جب مقدمات کا انبار لگا دیکھتے ہیں تو وہ ویسے ہی ہمت ہار دیتے ہیں۔ لہذا ہماری عدالتیں ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ پاکستان میں اس وقت ہر دس لاکھ آبادی کے لئے بارہ ججز کام کر رہے ہیں جبکہ انڈیا میں اتنی ہی آبادی کے لئے اٹھارہ، برطانیہ اکیاون اور امریکہ میں ایک سو پانچ ججز موجود ہیں۔ سیکریٹری لا ء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق اس وقت سپریم کورٹ اور اعلی عدالتوں میں ججز کی تعداد 146ہے جبکہ 167آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ خدا کی پناہ ۔ ملک کی اعلی عدالتوں میں جتنے ججز کام کر رہے ہیں ان کی کل تعداد سے زائد ججز کی آسامیاں ویسے ہی خالی پڑی ہیں۔ تو پھر ایسی صورت میں انصاف کی بروقت فراہمی کیسے ممکن ہوسکتی ہے۔ چھوٹی عدالتوں میں فی جج روزانہ 150سے 200کیسز روزانہ دیکھنے پڑتے ہیں ۔جس کے لئے فی کیس صرف ڈیڑھ منٹ موجود ہوتا ہے ۔ اتنے سے وقت میں تو کوئی جج ٹھیک طرح سے سانس بھی نہیں لے سکتا وہ مقدمہ کیا سنے گا۔ ڈیڑھ منٹ کا ٹائم تو فائل کو اٹھانے، میز پر رکھنے اور اسکا خلاصہ پڑھنے میں ہی صرف ہوجاتا ہے تو ایسی صورتحال میں جج سنوائی کیا کرے گا اور فیصلہ کیسے دے گا۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں اس وقت دس لاکھ کیسز زیرالتواء ہیں۔جبکہ ججز کی تعداد 398ہے ۔اس حساب سے فی جج ایک ہزار مقدمات کو دیکھنا پڑتا ہے جوکہ تقریبا ناممکن ہے۔ سب سے زیادہ زیرالتواء کیسز کے حساب سے لاہور ہائی کورٹ پہلے ، سندھ ہائی کورٹ دوسرے، پشاورہائی کورٹ تیسرے ، بلوچستان ہائی کورٹ چوتھے اور اسلام آباد ہائی کورٹ پانچویں نمبر پر ہے۔ ملک میں انصاف کی فراہمی کی حالت انتہائی دگرگوں ہے۔ جن معاشروں میں انصاف نہیں ملتا وہ معاشرے طاقتور ترین فوج رکھنے کے باوجود بھی زیادہ دیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاتے لہذا حکومت وقت کو چاہیے کہ انصاف کی بروقت فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے ججز کی تمام خالی آسامیوں کو ہنگامی بنیادوں پر پرُ کرے اور جہاں مزید عدالتوں کے قیام کے ضرورت ہے وہاں نئی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔ علاوہ ازیں ججز حضرات پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنی ڈیوٹی ذمہ داری سے سرانجام دیں کیونکہ تالی دونوں ہاتھوں سے ہی بجتی ہے۔ اگر آپ حکومت کو موردالزام ٹھہراتے رہیں گے کہ کیسز بہت زیادہ ہیں اور ججز کی تعداد کم ہے جبکہ خود ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے تو ایسی صورت میں نقصان غریب عوام کا ہی ہوگا۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ تمام ادارے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اپنا کام دیانتداری سے انجام دیں۔