Monday, September 3, 2018


پرکشش سرمایہ دارانہ ماحول کی ضرورت

دنیا کا کوئی بھی سرمایہ کار جذبات سے مغلوب ہوکر سرمایہ کاری نہیں کرتا لہذا اگر ہم یہ سوچیں کہ وزیراعظم پاکستان کی پہلی تقریر سن کر اندرون و بیرون ملک مقیم پاکستانی سرمایہ کار اپنا سرمایہ دھڑا دھڑ پاکستان لانا شروع کردیں گے تو یہ ہماری خام خیالی کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہونے والا۔ کاروبار ہمیشہ نفع و نقصان کی بنیاد پر چلتا ہے سرمایہ کار کو جہاں نفع نظر آئے گا وہیں سرمایہ لگائے گا۔ جہاں نقصان کا اندیشہ ہوگا وہاں سے ہاتھ کھینچ لے گا۔ اسی پیمانے کا مدنظر رکھتے ہوئے آئیے جانچتے ہیں کہ سرمایہ کار اپنا سرمایہ پاکستان کیونکر لائیں گے؟کسی بھی کاروبار کے لئے سب سے بنیادی چیز پرامن ماحول کا دستیاب ہونا ہے۔ کیا پاکستان ایک پرامن ملک کے طور پر جانا جاتا ہے ؟جی نہیں ۔ پاکستان کی تمام سیکیورٹی ایجنسیاں بشمول فوج ہمہ وقت دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ اگرچہ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے مگر ٹوٹی کمر کے ساتھ بھی دہشت گرد گاہے بگاہے ہمارے دانت کھٹے کرتے رہتے ہیں۔ ہر ہفتے نہیں تو ہر مہینے کہیں نہ کہیں دہشت گردانہ کاروائیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ ذراسوچیں ایسے ماحول میں کوئی سرمایہ کار کیسے اپنا سرمایہ پاکستان لائے گا۔ دوسری بات یہ کہ سرمایہ کار اپنا پیسہ ہمیشہ وہاں لگاتا ہے جہاں سیاسی استحکام ہو۔ ایک گورنمنٹ اپنی ٹرم پوری کرکے جائے تو اگلی حکومت سابقہ حکومت کی پالیسیوں کو جاری رکھے۔ لیکن پاکستان میں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ یہاں ہر حکومت عدم استحکام کا شکار رہتی ہے ۔پہلے تو یہ کہ حکومت اور اپوزیشن کی آپس میں نہیں بنتی اس پر مستزاد یہ کہ اکثرو بیشتر ایک تیسری قوت آبراجمان ہوتی ہے۔ ایسی صورتحال سرمایہ کار کو اپنا سرمایہ لگانے سے مانع رکھتی ہے۔ سوم، رشوت اور کرپشن پاکستانی معاشرے کا ناسور بن چکے ہیں۔ اگرچہ نئی حکومت کے کرپشن اور رشوت بازاری کے خاتمے کے اعلی عزائم ہیں تاہم ابھی پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزرنا ہے۔ پاکستان میں کاروبار کی بڑھوتری کے لئے سرکاری بابوؤں کے ساتھ ساتھ سیاسی طاقتوں کی مٹھیاں بھی گرم کرنی پڑتی ہیں۔ جس سے اخراجات بڑھ جاتے ہیں اور پیداواری لاگت میں اضافہ ہوتا ہے اور سرمایہ کار مارکیٹ میں موجود دوسری کمپنیوں سے مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہتا مزید یہ کہ اپنا جائز کام کروانے کے لئے بھی سرمایہ کاروں کو جگہ جگہ نذرانے دینا پڑتے ہیں۔ جس سے صحت مندانہ سرمایہ کارانہ سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ چہارم، پاکستان میں لوڈشیڈنگ کا مسئلہ بہت سنگین ہے۔ یہ لوڈشیڈنگ خواہ بجلی کی ہو یا گیس کی دونوں صورتوں میں سرکایہ کار کو پریشانی لاحق رہتی ہے مزید یہ کہ بجلی مہنگی ہونے سے پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے اور قیمت فروخت میں اضافہ ناگزیر ہوجاتا ہے۔ جبکہ خریدار مارکیٹ میں دستیاب سستی چیزوں کو ترجیح دیتا ہے۔ پنجم، پاکستان میں سرمایہ کاروں کو سب سے بڑا مسئلہ چین کی پیداکردہ سستی مصنوعات کا سامنا کرنا ہے۔ جو چیز پاکستان میں سو روپے میں بن کر مارکیٹ میں آتی ہے چین وہی چیز آدھی قیمت میں تیار کر کے مارکیٹ میں لے آتا ہے۔ ایسی صورتحال میں سرمایہ پاکستان لانا سرمائے کو ڈبونے کے مترادف ہے۔ اگر پاکستان سرمایہ کاروں کو اپنی طرف راغب کرنا چاہتا ہے تو پہلے سرمایہ داروں کے لئے پرکشش ماحول پیدا کرے جہاں انکے کاروبار کے پھلنے پھولنے کے یکساں مواقع موجود ہوں بصورت دیگر احمقوں کی جنت میں رہنے پر کوئی پابندی نہ ہے۔