Thursday, September 6, 2018



معیار اپنا اپنا

جب سے وزیراعظم پاکستان نے ایک قادیانی کو اقتصادی کمیٹی کا ممبر بنایا ہے سوشل میڈیا پر ایک طوفان امڈ آیا ہے۔ کیا اپنے کیا پرائے سبھی تنقید کے نشتر چلا رہے ہیں۔ اس طوفان میں تیزی تب آئی جب وزیر اطلاعات نے ان تنقید کرنے والوں کو شدت پسند قرار دیا۔ تنقید کرنے والوں کا مطالبہ ہے کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے لہذا یہاں کسی قادیانی، جو غیر مسلم ہیں، کوہرگز وزیر یا مشیر نہیں لگایا جاسکتا۔ بغور دیکھا جائے تو یہاں کئی سوالات جبم لیتے ہیں۔ مثلاََحکومت اور عوام میں کون غلط ہے؟ کیا کسی قادیانی کو سرکاری عہدہ دینا گنا ہ ہے؟کیا غیر مسلموں کو پاکستان میں بنیادی و آئینی حقوق حاصل ہیں؟قادیانیوں کی آئنی و حقیقی حثیت میں کیا تضاد ہے؟ان تمام سوالات پر سوشل میڈیا پر سیر حاصل بحث ہوچکی ہے لیکن آئیے اس موضوع کو کسی اور زاویے سے دیکھتے ہیں وہ یہ کہ پاکستان میں قادیانی ایک اقلیت کا درجہ رکھتے ہیں۔ جبکہ یورپی ممالک میں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا دونوں اطراف میں اقلیتوں کو بنیادی حقوق حاصل ہیں؟پاکستان میں تمام اقلیتوں بشمول سکھ، عیسائی ، ہندو ، پارسی اور قادیانی وغیرہ کو وہ حقوق حاصل نہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہیں اگرچے آئین پاکستان میں درج ہے کہ تمام اقلیتوں کو برابرانہ حقوق حاصل ہیں اور اقلیتوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے تاہم حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ۔ سادہ سی مثال لے لیں۔ تمام بڑی سرکاری نوکریاں صرف اور صرف مسلمانوں کے لئے مختص ہیں جبکہ اقلیتوں کے لئے معمولی سا کوٹہ ۔ اس معمولی کوٹے پر بھی جو بھرتی ہوتا ہے اس سے دوسرے مسلمان آفیسران جیسا برتاؤ نہیں کیا جاتا۔ تاہم تمام ادنیٰ ملازمتوں مثلاََ خاکروب، واٹر کیرئیراور مالی وغیرہ پر اقلیتی لوگ بھرتی کیے جاتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقلیتوں کو برابری کے حقوق حاصل نہیں۔ مزید یہ کہ مسلمانوں کو اپنی مذہبی رسومات چار دیواری سے باہر بھی ادا کرنے کی کھلی اجازت ہے مگر کوئی عیسائی ، ہندو یا قادیانی اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی سرعام کھلی سڑک پر نہیں کرسکتاکیونکہ سب سے پہلے مسلمان رکاوٹ ڈالیں گے اور اسکے بعد قانون حرکت میں آجائے گا اور حفاظتی اقدامات کے نام پر اقلیتوں کو چاردیواری میں مذہبی رسومات کی ادائیگی پر مجبور کر دیا جائے گا۔ دووسری طرف یورپ میں بھی اقلیتوں کا حال پتلا ہی ہے۔9/11کے بعد سے زیادہ تر یورپی ممالک میں اقلیتی درجہ رکھنے والے مسلمانوں کی داڑھی کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔ اگر آپ نے سنت رسول رکھی ہوئی ہے اور آپکے نام کے ساتھ محمد کا لفظ بھی لگا ہوا ہے تو آپکی شخصیت اور زیادہ مشکوک ہوجائے اور ائرپورٹس پر آپلی مکمل جامع تلاشی لینے کے ساتھ ساتھ گھنٹوں طرح طرح کے سوالات پوچھے جائیں گے۔ ماضی گواہ ہے کہ پاکستان سے جانے والے ایک سابق وزیراعظم جنہوں نے ہلکی سی داڑھی رکھی ہوئی تھی انکو بھی نہیں بخشا گیا۔ علاوہ ازیں اگر آپ ایک مسلم عورت ہیں اور حجاب پہنتی ہیں اور تو آپکی زندگی اجیرن ہوجائے گی۔ بیشتر یورپی ممالک حجاب پر پابندی لگا چکے ہیں۔ لہذا اگر ایک مسلم عورت حجاب پہن کر باہرنکلتی ہے تو نہ صرف عوام کے تشدد کا نشانہ بنیں گی بلکہ قانون بھی حرکت میں آئے گا اور آپ سزا و جرمانہ کا حق دار ٹھہریں گی۔ حالانکہ حجاب پہننا ایک ذاتی و مذہبی فعل ہے اور ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن جس طرح ہم مسلمانوں نے اپنے معیار متعین کر رکھے ہیں بعینہ یورپی اقوام نے بھی اپنے معیار اپنائے ہوئے ہیں۔ جسطرح مسلمان ریاستیں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کرتی اسی طرح یورپی ممالک بھی اقلیتی حقوق سلب کرتے ہیں۔ اگر مسلمان غلطی پر ہیں تو سیدھے راستے پر یورپی اقوام بھی نہیں ۔ کسی ایک کو مورد الزام ٹھہرانا زیادتی ہوگی۔ دونوں نے اپنے اپنے معیار اپنا رکھے ہیں۔