Thursday, September 20, 2018

نیا گوادر



نیا گوادر

وزیر اعظم عمران خان مسند اقتدار پر بیٹھنے کے بعد سب سے پہلے غیر ملکی دورے پر سعودی عرب گئے جہاں وہ سعودی فرماں روا محمد بن سلمان سے دوطرفہ مذاکرات کے بعد دس ارب ڈالرز کے اقتصادی پیکج کامعاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اگرچہ وزیراعظم کا ٹارگٹ تھا کہ کسی نہ کسی طرح متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ کم از کم پندرہ ارب ڈالرز کے معاہدے کیے جائیں مگر دس ارب ڈالرز بھی کوئی چھوٹی رقم نہیں۔ تاہم یہ رقم پاکستان کو امداد یا قرضے کی شکل میں نہیں ملے گی بلکہ سعودی عرب اس رقم کی سرمایہ کاری پاکستان میں کرے گا۔ وزیر اعظم کے حالیہ دورہ سعودی عرب کی سب سے اہم کامیابی سعودی فرماں روا کو سی پیک میں شمولیت پر راضی کرنا ہے۔ سعودی عرب نے سی پیک میں تیسرے اسٹرٹیجک پارٹنر کے طور پر شمولیت پر رضامندی کا اظہار کیا ہے یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب گوادر میں آئل سٹی تعمیر کرے گا۔ اگرچہ گوادر میں آئل سٹی تعمیر کرنے کا منصوبہ پہلے چین نے بنایا تھا تاہم پاکستان نے چین کو رضامندکر لیا ہے کہ یہ آئل سٹی سعودی عرب کو تعمیر کرنے دیا جائے۔سوال یہ ہے کہ گوادر میں آئل سٹی کی تعمیر کازیادہ فائدہ سعودی عرب کو ہوگا یا چین کو ؟ اگر یہ آئل سٹی چین تعمیر کرتا تو اسے اتنا فائدہ نہیں ہونا تھا جتنا فائدہ سعودی عرب کو ہوگا۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ چین کے پاس اتنے تیل کے ذخائر نہیں کہ وہ گوادر میں آئل سٹی تعمیر کرتا اور جنوبی اور وسط ایشائی ریاستوں کو بیچتاکیونکہ چین اپنی ضرورت کا زیادہ تر تیل درآمد کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب چین کو پاکستان کی طرف سے درخواست کی گئی کہ گوادر میں سعودی عرب کو آئل سٹی تعمیر کرنے دیا جائے تو چین نے فورا ہاں کردی۔ گوادر میں سعودی عرب کی طرف سے آئل سٹی کی تعمیر کے کئی فوائد حاصل ہوں گے۔ اول یہ کہ گوادر کو سی پیک منصوبے میں ریڑھ کی ہڈی کی حثیت حاصل ہے یہاں اگر چین اور پاکستان کے علاوہ کوئی تیسرا ملک سرمایہ کاری کرتا ہے تو اس سے سی پیک منصوبہ کامیاب ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اب پاکستان اور چین کو تیل خریدنے کے لئے مغربی ایشیائی ریاستوں کے پاس نہیں جانا پڑے گا کیونکہ تیل کا وسیع ذخیرہ گوادر میں ہی موجود ہوگا۔ سوم ، پاکستان اور چین کو تیل سمندری راستوں سے بحری جہازوں کے ذریعے لانا پڑتا ہے ۔ گوادر میں آئل سٹی کے قیام سے اس جھنجھٹ ، مشکلات اور خدشات وغیرہ سے چھٹکارا ملے گا۔ چہارم، سعودی عرب جیسا اقتصادی طور پر مستحکم ملک جب پاکستان میں تیل زخیرہ کرکے دوسرے ممالک سے تجارت کرے گا تو پاکستان کو کئی فوائد حاصل ہوں گے مثلاََ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، تیل کی کمی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، دوسرے ممالک کے بحری جہاز جب گوادر میں لنگر انداز ہوں گے تو پاکستان کو محصولات کی شکل میں اضاضی ریونیو حاصل ہوگا۔کاروباری سرگرمیاں بڑھنے سے سرمایہ بھی بڑھے گا اور ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ تاجروں کے آنے سے ہوٹل کی صنعت میں ترقی ہوگی۔ حکومت غیرملکی سیاحوں کو متوجہ کرنے کے لئے گوادر کے ساحلوں کو پرکشش بنائے گی تو سیاحت کی صنعت فروغ پائے گی۔ چین ، روس سمیت مشرقی و وسط ایشیائی ریاستیں جب گوادر سے تیل خریدیں گی اور بذریعہ سی پیک اپنے ملکوں میں لے جائیں گی تو پاکستان کو محصولات کی شکل میں اضافی سرمایہ حاصل ہوگا۔ پنجم، اگلے سال جنوری سے ایران پر امریکی پابندیاں شروع ہورہی ہیں جس بابت امریکہ نے ابھی سے واضح کردیا ہے کہ بھارت کو بھی ان پابندیوں سے استثناء حاصل نہیں ۔ بھارت جوکہ اپنی ملکی ضروریات کا تقریبا 83فیصد تیل درآمد کرتا ہے وہ بھی ایران سے تیل نہیں خرید سکے گا۔ حیرت انگیز طور پر ایران پر امریکی پابندیاں پاکستان کے لئے سازگار ثابت ہونگی ۔ مثلاََ ایران گوادر بندرگاہ کے مقابلے میں بھارت کی مدد سے چاہ بہار بندرگاہ تیار کررہا ہے۔ امریکی پابندیوں سے یہ تمام سرگرمیاں رک جائیں گی جسکا فائدہ گوادر کو ہوگا۔ علاوہ ازیں بھارت جو کہ زیادہ تر ایران سے تیل خریدتا ہے امریکی پابندیوں کی بدولت اسے دوسرے ممالک کی طرف دیکھنا پڑے گا۔ لیکن جب تیل کا وسیع ذخیرہ گوادر کے مقام پر سعودی عرب لے کر بیٹھا ہوگا تو بھارت کے منہ سے بھی رال ٹپکے گی لہذا بھارت پاکستان سے بہتر تعلقات پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہ تمام تر حالات ایک اچھے مستقبل کی نوید سنا رہے ہیں۔ اول، تجارتی لحاظ سے گوادر جلد ہی اس خطے میں مرکزی حثیت حاصل کرنے والا ہے۔ دوم، گوادر ایشائی ریاستوں کے درمیان بہتر تعلقات کی بنیاد بنے گا ۔سوم ، گوادر کی بدولت جب ایشیا ء کی بڑی بڑی طاقتیں باہم یکجا ہونگی تو ترقی کے نئے مواقع پیدا ہونگے اور طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی طرف شفٹ ہوجائے گا۔ لہذا نئے پاکستان کا نیا گوادر ایک اچھے مستقبل کی نوید سنا رہا ہے۔