Wednesday, September 19, 2018

وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں



وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں

عمران خان کے مسند اقتدار پر بیٹھنے کے بعد عجیب و غریب چیزیں سامنے آرہی ہیں۔پہلے قوم کو بتایا گیا کہ وزیراعظم کی خدمت کے لئے 524ملازم ، سفر کے لئے کم از کم 33بلٹ پروف گاڑیاں اور چار ہیلی کاپٹر ہر وقت حاضر خدمت رہتے ہیں۔ بعدازاں یہ بات سامنے آئی کہ وزیراعظم ہاؤس میں آٹھ عدد بھینسیں بھی پائی جاتی ہیں؟جب یہ راز افشاں ہوا تو تمام انگشت بدنداں تھے کہ وزیراعظم ہاؤس میں بھینسوں کا کیا کام؟تاہم قوم کو یہ بتایا گیا کہ سابق وزیراعظم ان بھینسوں سے خالص دودھ حاصل کرتے تھے۔اس خبر سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔یہ کہ وزیراعظم کو یہ بھینسیں رکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟کیا پاکستان میں کہیں بھی خالص دودھ دستیاب نہیں کہ وزیراعظم کو بھینسیں رکھنی پڑگئیں؟ اس صورت حال میں سابقہ حکومت کی اہلیت پر سوال اٹھتا ہے۔کیا پاکستانی ادارے اتنے کمزور ہوچکے ہیں کہ ملک کے اندر حتی کہ وزیراعظم ہاؤس میں بھی خالص دودھ مہیا نہیں کرواسکتے؟یہ حقیقت آشکار ہونے پر نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ہے۔کہتے ہیں کہ قمیض اٹھانے سے اپنا ہی پیٹ ننگا ہوتا ہے۔ لیکن جب قمیض اٹھ ہی گئی ہے تو پھر بتائے دیتے ہیں کہ اس وقت پاکستانی اداروں کے حالات انتہائی دگر گوں ہیں کیونکہ کم از کم پچھلے پندرہ سالوں سے کرپشن عروج پر تھی۔جو چاہتا تھابہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیتا تھا۔ کوئی پوچھنے والا ہی نہ تھا۔ اوپر سے جعلی اور سیاسی بھرتیوں نے سرکاری اداروں کی حالت زار کو اور گہنا دیا تھا۔ سابق حکمرانوں کی سرپرستی میں منی لانڈرنگ کا کھیل کھیلا گیا جنہوں نے عوام کا پیسہ بیرون ملک منتقل کر کے اپنی اور اپنے بچوں کی جائیدادیں بنائیں۔جس گھر کا سربراہ ہی گھر کی اشیا چوری کرکے کہیں اور منتقل کرنا شروع کردے اس گھر کا اللہ ہی حافظ ہوتا ہے۔تاہم نئی حکومت کے آنے اور انکے ابتدائی اقدامات سے قوم کو تھوڑا سا حوصلہ ہوا ہے کہ کم از کم کرپشن اور منی لانڈرنگ کا کھیل تو اب رک جائے گا۔ لیکن عجیب تماشہ ہے کہ وہ لوگ جو گزشتہ ادوار میں حکمرانی کے مزے لیتے ہوئے کرپشن اور منی لانڈرنگ میں ملوث رہے وہی لوگ اب نئے وزیراعظم کی سادگی تحریک کا مزاق اڑاتے نظر آتے ہیں ۔ کوئی کہتا ہے کہ پرانی گاڑیوں کی نیلامی سے پیسے حاصل کر کے نئی حکومت ڈیم بنانا چاہتی ہے۔ "ڈیم خیرات کے پیسوں سے نہیں بنتا" ۔ وزیراعلی سندھ تو یہاں تک کہہ گئے کہ وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں بیچنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا الٹا چار سال بعد نیب کا کیس بن جائے گا تاہم اگر ان بھینسوں کا دودھ نکال کر بیچا جائے تو زیادہ رقم ہاتھ آئے گی۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملک پاکستان کو گزشتہ ادوار میں دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔اب اگر کوئی ایسا شخص آیا ہے جو چاہتا ہے کہ غربت کی ماری یہ قوم اوپر اٹھے،خوشحال بنے اور ترقی کی منازل طے کرے تو یہ ان اپوزیشن رہنماؤں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا۔ یہ ایسے ایسے مشورے دے کر وزیراعظم کا مزاق اڑا رہے کہ جسے سن کر کوئی عام آدمی بھی طیش میںآجائے۔ کیا وزیراعظم اب بھینسوں کو چارہ ڈالا کرے گا؟اگر وزیراعظم سے بھینسوں کا دودھ ہی نکلوانا ہے تو پھر وزیراعظم رکھنے کی کیا ضرورت ؟ یہی کام کوئی عام گوالا بھی اس سے سو گنا کم اجرت میں کر دیا کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان نام نہاد اپوزیشن لیڈروں کو اپنی روزی روٹی بند ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔ انہیں معلوم ہے کہ اگر عمران خان کامیاب ہوگیا تو پھر انکی کرپشن اور منی لانڈرنگ سے لتھڑی سیاست دفن ہوجائے گی۔ یہ ہر ممکن کوشش کریں گے کہ حکومت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں ۔ انکا مزاق اڑایا جائے تاکہ عوام انکو برا جانے۔ لیکن شاید انکو یہ نہیں معلوم کہ اب کی بار ان کا پالا ایک مختلف لیڈر سے پڑا ہے جو نہ خود جھکے گا اور نہ ہی قوم کو کسی کے آگے جھکنے دے گا چاہے اسکے لئے اسے وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں بیچنے جیسا ادنی کام ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ یہ ایسا لیڈر ہے جو بھینسیں گھر میں رکھ کر خود خالص دودھ حاصل کرنے کی بجائے اس بات کو یقینی بنائے گا کہ عوام کو خالص دودھ مارکیٹ میں دستیاب ہو کیوں کہ وہ ہر تقریر میں ریاست مدینہ کی مثالیں دیتا ہے اور اس پر عمل کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتا ہے۔ وہ خود کرپٹ ہے اور نہ ہی کرپشن کو برداشت کرتا ہے۔ منی لانڈرنگ کرے گا اور نہ کسی کو کرنے دے گا۔ پرانے پاکستان کے وزیراعظم نے بھینسیں رکھیں ہوئی تھیں تاکہ خود کو خالص دودھ ملے لیکن نئے پاکستان کے وزیراعظم نے وہ بھینسیں بیچ دی ہیں کیوں کہ وہ بھی وہی کچھ کھائے پیئے گا جو عوام کھا پی رہی ہے۔ یہ ہے تبدیلی